کن کن ممالک میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہےاور کن ممالک میں کورونا کی شدت میں کمی آرہی ہے؟تفصیلی رپورٹ

نیویارک(پی این آئی)جون کی 28 تاریخ کو دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ سے بڑھ گئی جس کے بعد عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا ہے کہ وائرس سے مقابلے کا اب ایک نیا اور خطرناک مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔مغربی یورپ اور ایشیا کے کئی ممالک میں وائرس کے پھیلاؤ پر بڑی

حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن دوسری جانب دنیا کے دیگر کئی علاقوں میں یہ وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔جب کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تو دس لاکھ افراد کو متاثر ہوتے ہوتے نوے دن لگ گئے لیکن نوے لاکھ سے ایک کروڑ کی تعداد صرف آٹھ روز میں بڑھی گئی جس سے اس وائرس کے پھیلاؤ کی تیزی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔اور لاطینی امریکہ کے ایک ملک میں کام کرنے والے اہلکار کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ کافی خراب ہو سکتا ہے کیونکہ ‘یہ تعداد ہمیں صرف ان لوگوں کی ملی ہے جنھوں نے اپنے ٹیسٹ کروائے ہیں۔’اعداد و شمار میں یہ تیزی امریکی بر اعظم، جنوبی ایشیا اور افریقہ کے چند ممالک میں دیکھنے میں آ رہی ہے۔دنیا بھر میں مصدقہ متاثرین اور اموات کی سب سے زیادہ تعداد امریکہ میں ہے اور اس میں اب مزید تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔گذشتہ چند دنوں سے امریکہ میں مثبت متاثرین کی یومیہ تعداد 40 ہزار سے زیادہ دیکھنے میں آ رہی ہے اور ریاست ایریزونا، فلوریڈا اور ٹیکساس میں وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے ہو رہا ہے۔خدشات کے برعکس، یہ وائرس کی دوسری لہر نہیں ہے بلکہ وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہے اور ان ریاستوں میں نظر آیا ہے جہاں لاک ڈاؤن پر پابندیاں جلدی ہٹا لی گئیں۔امریکہ بعد برازیل کا نمبر آتا ہے اور وہ دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں دس لاکھ سے زیادہ متاثرین کی شناخت ہو چکی ہے۔ملک کے دو سب سے بڑے شہر، ریو ڈی جنیرو اور ساؤ پاؤلو میں سب سے زیادہ متاثرین کی تشخیص ہوئی ہے لیکن اس کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی یہ وائرس پھیل رہا ہے اور وہاں پر ٹیسٹنگ کی زیادہ تعداد نہ ہونے کے سبب خدشہ ہے کہ مریضوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو گی۔دنیا میں آبادی کے اعتبار سے دوسرے بڑے ملک انڈیا میں بڑی تعداد میں متاثرین سامنے آ رہے ہیں۔ چند روز قبل وہاں ایک روز میں ریکارڈ 15 ہزار مریض سامنے آئے۔ اور کیونکہ چند ریاستوں میں ٹیسٹنگ کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا ہے، شک ہے کہ آنے والے دنوں میں مریض سامنے آئیں۔لیکن یہ ہو کیوں رہا ہے؟ اس بارے میں عالمی ادارہ صحت کے خصوصی اہلکار برائے کووڈ 19 ڈیوڈ نبارو کہتے ہے کہ یہ کورونا وائرس غریب افراد کا مرض بن گیا ہے۔اور جب پورے پورے خاندان ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہوں، تو وہاں سماجی فاصلے برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے اور باقاعدگی سے ہاتھ بھی نہیں دھویا جا سکتا۔ ایسی صورت میں وائرس لگنے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔.دنیا میں آبادی کے اعتبار سے دوسرے بڑے ملک انڈیا میں بڑی تعداد میں متاثرین سامنے آ رہے ہیں۔ چند روز قبل

وہاں ایک روز میں ریکارڈ 15 ہزار مریض سامنے آئے۔ اور کیونکہ چند ریاستوں میں ٹیسٹنگ کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا ہے، شک ہے کہ آنے والے دنوں میں مریض سامنے آئیں۔لیکن یہ ہو کیوں رہا ہے؟ اس بارے میں عالمی ادارہ صحت کے خصوصی اہلکار برائے کووڈ 19 ڈیوڈ نبارو کہتے ہے کہ یہ کورونا وائرس غریب افراد کا مرض بن گیا ہے۔اور جب پورے پورے خاندان ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہوں، تو وہاں سماجی فاصلے برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے اور باقاعدگی سے ہاتھ بھی نہیں دھویا جا سکتا۔ ایسی صورت میں وائرس لگنے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔.حقیقت یہ ہے کہ وائرس کہ پھیلاؤ میں اور بھی چیزوں کا ہاتھ ہے، جیسے مختلف ممالک میں حکمران اور سیاستدان جنھوں نے صحت کے حوالے سے دی گئی تجاویز کو رد کر دیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مختلف مواقعوں پر اس مرض کی سنگینی کو سنجیدہ نہیں لیا ہے اور کبھی چین اور کبھی عالمی ادارہ صحت کو مورد الزام ٹھیرایا ہے۔ انھوں نے بار بار معیشت کو کھولنے پر زور دیا ہے اور ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ، جو ٹرمپ کی طرح ری پبلیکن پارٹی سے ہیں، کی تعریف کی ہے کیونکہ انھوں نے اپنی ریاست میں سب سے پہلے لاک ڈاؤن کو ختم کیا تھا، اور ماہرین کے مطابق متاثرین کی تعداد میں اتنے تیز اضافے کا سبب یہی فیصلہ تھا۔امریکہ حکومت نے اپریل میں عوامی مقامی پر ماسک پہننے کو ضروری قرار دیا تھا لیکن یہ فیصلہ بھی اب سیاسی تقسیم کا باعث بن گیا ہے۔ٹیکساس نے ماسک پہننے کے فیصلے پر عمل در آمد کرانے پر زور نہیں دیا اور وجہ بیان کی کہ اس سے انفرادی آزادی پر قدغن لگتی ہی تو دوسری جانب کیلیفورنیا ریاست جہاں ڈیموکریٹس کی حکومت ہے، کہتے ہیں کہ ‘سائنس ماسک پہننے کو درست کہتی ہے۔ادھر برازیل میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جہاں صدر جئیر بولسونارو نے اس وائرس کو ‘زکام’ سے تشبیہ دی تھی اور حکام کو ہر وہ کام کرنے سے روکا جس سے ان کو شبہ تھا کہ معیشت متاثر ہوگی۔وہ خود ماسک پہننے سے اجتناب کر رہے تھے لیکن ملک میں عدالت نے ان پر لاگو کیا

ہے کہ وہ لازمی طور پر ماسک پہنیں۔اس قسم کی رویوں کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادہانوم نے کہا کہ ‘وائرس سے زیادہ بڑا خطرہ عالمی قیادت میں اتفاق اور اتحاد کا فقدان ہے۔بحر الکاہل میں واقعے نیوزی لینڈ کو یہ فائدہ تھا کہ ایک جزیرہ ہونے کے باعث وہ دوسرے ممالک سے خود کو آسانی سے علیحدہ کر سکتے تھے۔وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کی قیادت میں انھوں نے عمدہ کارکردگی دکھائی اور عالمی طور پر ان کی سربراہی کی تعریف کی گئی جس کی وجہ سے حال ہی میں نیوزی لینڈ نے 24 دن بغیر کسی متاثرہ افراد کی شناخت کیے بغیر گزارے۔نیوزی لینڈ کا بغیر کسی مریض کے سامنے آنے والا ریکارڈ اس وقت ٹوٹا جب بیرون ملک سے آنے والے افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی لیکن ماہرین اس سے پریشان نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے نشاندہی کی کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جانچ اور نگرانی کے نظام کو کیسے موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ادھر جنوبی کوریا نے بھی ٹیکنالوجی کی مدد سے وائرس کے پھیلاؤ کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔دارالحکومت سیئول کے مئیر نے کہا ہے کہ اگر لگاتار تین دن تک مسلسل 30 نئے متاثرین سامنے آئے تو ہم سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنے کے فیصلے کو دوبارہ عائد کر دیں گے۔لیکن ان تمام کامیاب ممالک میں سب سے اہم نام ویتنام کا ہے جنھوں نے دعوی کیا ہے کہ ملک میں کووڈ 19 س9 اب تک ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔ایک بات جو ابھی واضح نہیں ہے کہ وہ افریقی ممالک میں وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں ہے۔ اب تک کی خبروں کے مطابق وہاں کورونا وائرس اتنی تیزی سے نہیں پھیلا جس کا

خدشہ تھا۔اس بارے میں چند افراد کا کہنا ہے کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہاں ٹیسٹنگ کی صلاحیت زیادہ نہیں ہے تو متاثرین کی تشخیص بھی نہیں ہو سکتی۔دوسری بات یہ ہے کہ وہاں مجموعی طور پر آبادی میں کم عمر افراد کی تعداد زیادہ ہے تو ہو سکتا ہے کہ وائرس نے اتنا زیادہ متاثر نہ کیا ہو۔اور تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کیونکہ افریقی برادریاں بیرونی ممالک سے زیادہ رابطے میں نہیں ہیں تو وائرس وہاں نہیں پھیل سکا۔لیکن خدشہ اس بات کا ہے کہ وائرس کی نئی لہر دوبارہ آ سکتی ہے اور اس کے لیے مسلسل تیار رہنا ہوگا تاکہ اگر ترقی پذیر ممالک میں یہ وبا مزید پھیلی تو بہت دشواری ہو سکتی ہے۔

close