سری لنکا (پی این آئی)کورونا کا خوف، سری لنکا میں مسلمانوں کی میتیں جلانے کا سلسلہ جاری، مسلمان آبادی کا احتجاج نظر انداز، عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا سے انتقال کرنے والے افراد کی تدفین سے متعلق نئی گائیڈ لائن کے باوجود سری لنکا میں مسلمانوں کو ان کی میتوں کو تدفین کی اجازت نہیں دی جارہی۔
مسلمانوں کی میتوں کو سرکاری سطح پر جلایا جارہا ہے جس سے مقامی مسلمانوں میں شدید غم وغصہ اور خوف پایا جاتا ہے ۔ سری لنکا میں بسنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ حکام کورونا وائرس کی وبا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں اپنے مُردوں کو دفنانے کے بجائے غیر اسلامی طریقے سے جلانے پر مجبور کر کے اُن سے امتیازی سلوک کے مرتکب ہو رہے ہیں۔نیوز کے مطابق سری لنکا کی مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والی 44 برس کی فاطمہ رینوزہ کو چار مئی کو ایک مقامی اسپتال میں کووِڈ 19 کے شبہے میں داخل کروایا گیا تھا۔فاطمہ تین بچوں کی ماں تھیں۔سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کی رہائشی فاطمہ سانس کی تکلیف میں مبتلا تھیں جس پر حکام کو شبہ ہوا کہ شاید وہ کورنا وائرس سے متاثر ہو چکی ہیں۔ان کے شوہر محمد شفیق نے کہا کہ جس دن اُنھیں اسپتال میں داخل کیا گیا تھا تو ان کے خاندان کو محسوس ہوا کہ انھیں ایک پالیسی کے تحت گھیر لیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’فوجی جوانوں کے ہمراہ پولیس اہلکار ہمارے گھر آئے۔‘’انھوں نے ہمیں گھر سے باہر نکال دیا اور ہمارے گھر میں ہر جگہ جراثیم کُش ادویات چھڑکیں۔ ہم سب خوفزدہ ہوگئے لیکن انھوں نے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔یہاں تک کہ ہمارے گھر میں موجود تین ماہ کے بچے کو بھی ٹیسٹ کیا گیا اور وہ لوگ ہمیں جانوروں کی طرح ایک قرنطینہ مرکز لے گئے۔‘انھوں نے بتایا کہ پورے خاندان کو رات بھر کے لیے وہاں رکھا گیا تاہم اگلے دن چھوڑ دیا گیا۔اور ہدایت کی گئی کہ اپنے آپ کو دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں رکھو۔ اس دوران انھیں خبر ملی کہ فاطمہ اسپتال میں ہلاک ہوگئی ہیں۔فاطمہ کے جواں سال بیٹے سے کہا گیا کہ وہ اپنی والدہ کی میت شناخت کرنے کے لیے اسپتال آئیں۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ ان کی والدہ کی میت گھر واپس نہیں لے جائی جا سکتی کیونکہ انھیں شبہ ہے کہ فاطمہ کی موت کووِڈ 19 سے ہوئی ہے۔اس کے بجائے انھیں چند کاغذات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا تاکہ ان کی والدہ کی لاش کو جلایا جا سکے باوجود اس کے کہ اسلامی شریعت میں انسانی میت کا جلایا جانا صحیح نہیں سمجھا جاتا۔نوجوان کے والد محمد شفیق کا خیال ہے کہ انھیں اصل حالات سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ’اُس (بیٹے) کو کہا گیا کہ اُس کی والدہ کے جسم سے کچھ حصے مزید ٹیسٹوں کے لیے الگ کرنے ہیں۔ اگر اُنھیں کورونا نہیں تھا تو ان کے جسم کے حصوں کو نکالنے کی کیا ضرورت تھی؟وائرس کے ٹیسٹ کرنے والے اسٹاف نے بتایا ہے کہ فاطمہ کا ٹیسٹ مثبت نہیں آیا تھا۔ اس اطلاع کے بعد فاطمہ کے گھر والوں کے زخم دوبارہ تازہ ہو گئے ہیں۔شفیق کا کہنا تھا کہ ’ہم مسلمان اپنے مردے جلاتے نہیں ہیں۔اگر انھیں معلوم تھا کہ فاطمہ کو کورونا نہیں ہے تو پھر اُسے کیوں جلایا؟‘سری لنکا کے ایک سابق وزیر اور آئندہ انتخابات میں کھڑے ہونے والے ایک مسلمان امیدوار علی ظاہر مولانا کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے 182 ارکان میں سے سری لنکا واحد ملک ہے جہاں کورونا سے انتقال کرنے والے مسلمانوں کی لاشوں کو جلایا جاتا ہے۔علی ظاہر مولانا نے سنہالا کو بتایا کہ ’اگر ایسے سائنسی شواہد موجود ہیں جو اس دعوے کو ثابت کرتے ہیں کہ تدفین صحت عامہ کے لیے خطرناک ہے‘ تو مسلمان کمیونٹی کو حکومت کا فیصلہ قبول ہو گا۔فاطمہ کے اہلخانہ سری لنکا میں رہنے والے اُن مسلم خاندانوں کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں جو حکومت کو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ان مسلم خاندانوں کا کہنا ہے کہ باوجود اس کے کہ صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کے رہنما اصولوں میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے شخص کی لاش کو دفنانے کی اجازت دی گئی ہے، سری لنکا کے مسلمانوں کو اپنے مُردے جلانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سِنہالی اکثریتی ملک میں مسلمانوں کو ہراساں اور خوفزدہ کرنے کا یہ ایک نیا حربہ ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں