واشنگٹن (پی این آئی) امریکی صدر کے سابق سیکیورٹی ایڈوائزرجان بولٹن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ گذشتہ سال فروری کے آخر میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ خودکش حملے کے نتیجے میں 46 ولیس اہلکار ہلاک ہونے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی۔پاک فضائیہ کے جوابی وار کے
نتیجے میں بھارتی مگ طیارہ گرنے پر امریکہ میں ہلچل مچ گئی تھی۔بولٹ نے مزید لکھا کہ 27 فروری کی شام کو وائٹ ہاؤس میں اعلی سطح کی میٹنگ ہوئی جس میں امریکی صدر کے ساتھ افغانستان کی کشیدہ صورتحال پر بات چیت کی جانی تھی مگر جلد ہی سان ہان اور سن فورڈ ہومیو اور خود جان بولٹن پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا شدہ صورتحال پر بات کرنے لگے۔میٹنگ میں سیکریٹری آف سٹیٹ مائیک پومیو،چیئرمین آف ڈی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف اور ڈیفنس سیکریٹری شامل تھے۔انہوں نے کہا کہ اس اجلاس کے دوران کافی دیر تک فون کالز کے ذریعے معلومات اکٹھی کی گئیں۔انہوں نے کہا کہ کسی دوسرے ملک کی صورتحال کو نظر انداز کیا جاسکتا تھا مگر دو جوہری قوتوں کی فوج کی لڑائی کو نظر انداز کرنا پاگل پن ہی کہا جا سکتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والے تنازعے کی وجہ پلوامہ کا حملہ تھا جس میں مقامی کشمیری نے بھارتی فوج کے وفد پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 40 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔جس کے بعد بھارتی حکومت نے نئی دلی سے پاکستان پر الزام عائد کیا اور جواب دینے کے لئے بالاکوٹ میں حملے کی کوشش کی اور نتیجتا بھارتی طیاروں کو اپنے پے لوڈ گرا کر بھاگنا پڑا۔بالاکوٹ میں بھارت کے حملے نے دنیا کو خوفزدہ کردیا تھا کیونکہ بھارت کے اس حملے سے پاکستان کا جواب دینا انتہائی ضروری تھا جس کے نتیجے میں دو ایٹمی قوتوں کا ٹکراؤ بڑی تباہی کا سبب بن سکتا تھا۔تاہم پاکستان نے صبر کا مظاہرہ کیا اور 27 فروری کو جب ایک بھارتی طیارہ اپنے علاقے میں داخل ہوا تو اسے مار گرایا جبکہ ان کا بھارتی کمانڈر پکڑ لیا جسے ساٹھ گھنٹے اپنے پاس رکھا گیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں