لندن(پی این آئی)سائنسدان خبردار کرتے رہے ہیں کہ ہم نے امراض کے جنگلی حیات سے انسانوں میں منتقلی اور پھر ان کے دنیا بھر میں پھیلنے کے لیے ماحول کو سازگار بنا کر رکھا ہے۔قدرتی ماحول میں انسانی دخل اندازی اس عمل کو مزید تیز کر دیتی ہیں۔یہ نقطۂ نظر ان ماہرین صحت کا ہے جو وبائی امراض کے پھوٹ
پڑنے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔اپنی ان کوشش کے نتیجے میں انھوں نے نشاندہی کا ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جو جنگلی حیات سے انسانوں کے اندر امراض کی منتقلی کی پیشین گوئی کر سکتا ہے۔اگرچہ مستقبل میں وباؤں سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی یہ کوششیں عالمی سطح پر ہو رہی ہیں لیکن ان کی سربراہی برطانیہ میں یونیورسٹی آف لیورپول کے سائنسدانوں کی ایک جماعت کر رہی ہے۔یونیورسٹی آف لیورپول کے پروفیسر میتھیو بیلِس کا کہنا ہے کہ ‘پچھلے 20 برسوں میں ہمیں چھ خطروں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سارس، مرس، ایبولا، ایوین انفلوئنزا اور سوائن فلو شامل ہیں۔ ہم پانچ کو تو جھکائی دے کر بچ گئے مگر چھٹے کی زد میں آ ہی گئے۔’اور یہ آخری عالمی وبا نہیں ہے جس کا ہمیں سامنا ہے، اسی لیے ہمیں جنگلی حیات کے امراض کا زیادہ گہرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس دقیق تحقیق کی بنیاد پر پروفیسر بیلِس اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جس کی مدد سے وہ جنگلی حیات کے تمام معلوم امراض کا مطالعہ کر کے معلومات کے اس وسیع ذخیرے سے استفادہ کر سکیں گے اور آنے والے رجحانات کی نشاندہی کر سکیں گے۔سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر ترجیحی بنیادوں پر کسی جرثومے کی نشاندہی ہو جائے تو پھر اس سے پیدا ہونے والے مرض کی روک تھام اور علاج پر زیادہ توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے۔کئی سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ جنگلات کی کٹائی اور جنگلی حیات کے مسکنوں پر انسانی تجاوزات جانوروں سے انسانوں میں امراض کی منتقلی میں مددگار ہیں۔یونیورسٹی کالج لندن کی پروفیسر کیٹ جونز کہتی ہیں کہ شواہد ‘سے پتا چلتا ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے کم حیاتی تنوع والے ماحولی نظاموں، جیسا کہ زراعت یا مصنوعی جنگلات، وغیرہ، میں انسانوں کے اندر بیماریوں کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ معاملہ ہر مرض کے ساتھ نہیں ہے۔ مگر وہ جنگلی حیات جو انسانی سرگرمی سے زیادہ متاثر نہیں ہوتی، مثلاً جنگلی چوہے وغیرہ، جراثیم کی پرورش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ایسی چند وبائیں سامنے آ چکی ہیں جن سے جنگلی حیات اور انسانوں کے درمیان امراض کی منتقلی کی وضاحت ہوتی ہے۔ملائشیا کے علاقے نِپاہ میں سال 1999 میں
وائرس کا ایک مرض پھل خور چمگادڑوں سے جنگل کے قریب واقع سور پالنے کے ایک فارم میں منتقل ہو گیا تھا۔ پھل خور چمگادڑوں نے درختوں پر لگے پھل کُترے اور جب یہ ادھ کھائے لعاب لگے پھل زمین پر گرے تو وہاں موجود سوروں کی خوراک بن گئے۔بعد میں 250 سے زیادہ ایسے افراد میں یہ وائرس پایا گیا جو ان سوروں سے کسی طرح رابطے میں آئے تھے۔ ان میں سے 100 سے زیادہ ہلاک ہو گئے۔ کورونا وائرس کی شرح ہلاکت اگرچہ ابھی سامنے آ رہی ہے، مگر موجودہ شرح 1 فیصد ہے۔ نپاہ وائرس کی شرح ہلاکت 40 سے 75 فیصد ہے۔جنگلات کے قریب واقع فارم اور ایسے بازار جہاں جنگلی جانوروں کی تجارت کی جاتی ہے ایسے مقامات ہیں جہاں انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان رابطہ اور بیماریاں کا تبادلہ ہوتا ہے۔یونیورسٹی آف لیورپول کے پروفیسر ایرِک فورے کہتے ہیں ‘ہمیں ایسے مقامات سے ہوشیار رہنا چاہیے اور کسی غیر متوقع صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ انسانوں کے اندر سال میں تین چار نئی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ایسا صرف ایشیا یا افریقہ میں نہیں بلکہ یورپ اور امریکا میں بھی ہو رہا ہے۔پروفیسر بیلس کہتے ہیں کہ نئی بیماریوں کی نشاندہی کے لیے نگرانی کا نظام بہت اہم ہے۔پروفیسر فورے کہتے ہیں کہ موجودہ بحران نے قدرتی ماحول میں انسانی مداخلت کے خطرات ہم پر واضح کر دیے ہیں۔ان کے بقول: ‘ہم جو کھاتے ہیں اور جو قدرتی وسائل استعمال کرتے ہیں اور جو اشیا ہم اپنے سمارٹ فون میں استعمال کرتے ہیں، جن سے لوگ دولت پیدا کرتے ہیں، ہمیں سوچنا چاہیے کہ ان سب کا اثر پڑتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں