نیویارک(پی این آئی)دنیابھر میں کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے اس وقت 160 سے زائد ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے اور ماہرین کو توقع ہے کہ رواں سال کے آخر تک ایک موثر ویکسین تیار ہوجائے گی۔دیگر ماہرین انتباہ کرتے ہیں کہ اتنے کم وقت میں ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔درجنوں ویکسینز میں
سے چند ایک ہی اس وقت انسانی آزمائش کے مرحلے سے گزر رہی ہیں اور اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ بیشتر لیبارٹری سے آگے نہیں جاسکیں گی۔ویکسین تیار کرنے والے ماہرین اس جانب توجہ دلاتے ہیں متعدد مختلف اقسام کی ویکسینز پر اس وقت کام ہورہا ہے اور چھوٹی کمپنیوں نے بڑے اداروں سے اشتراک کیا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر تیاری کی جاسکے جو امید کی کرن روشن کرتا ہے۔اب تک جو ویکسینز تیزی سے پیشرفت کررہی ہیں ان کے بارے میں جانیں، جن کی کامیابی کا انتظار پوری دنیا کو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔موڈرینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امریکی کمپنی کی ویکسین ایم آر این اے 1273 پہلی ویکسین تھی جو انسانی آزمائش کے مرحلے میں داخل ہوئی تھی، جس کی تیاری کے لیے میسنجر ایم آر این تیکنیک استعمال کی جارہی ہے، اس طریقہ کار میں ویکسین کی تیاری کے لیے ایک وائرس کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے نئے نوول کورونا وائرس کی سطح پر موجود ایک اہم اسپائیک پروٹین بناتا ہے، یہ پروٹین وائرس کو خلیات میں داخل ہونے کا موقع دیتا ہے۔اس طریقہ کار تیار ہونے واللی ویکسین جب انجیکٹ کی جاتی ہے تو وہ مدافعتی خلیات تک جاکر انہیں اسپائیک پروٹین کی نقول بنانے کی ہدایت دیتی ہے، یعنی ایسے کام کرتی ہے جیسے خلیات کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔اس سے دیگر مدافعتی خلیات میں وائرس سے تحفظ کے لیے امیونٹی پیدا ہوتی ہے، یہ ویکسین اس وقت انسانی ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جس میں اس کے محفوظ ہونے اور افادیت کو جانچا جائے گا۔موڈرینا اس کی تیاری کے لیے امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشز ڈیزیز کے ساتھ کام کررہی ہے اور 18 سے 55 سال اور 55 سال یا اس سے زائد عمر کے 600 افراد پر مشتمل 2 گروپس کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ویکسین کے تیسرے ٹرائل کی تیاریاں ابھی سے شروع ہوچکی ہیں اور توقع ہے کہ اس کا آغاز جولائی 2020 کو ہوگا۔تیسرے مرحلے کا ٹرائل آخری ہوگا جس میں ویکسین کی افادیت کو زیادہ بڑے گروپ میں جانچا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ یہ دوا کے مقابلے میں کس حد تک بہتر کام کرتی ہے۔تیسرے مرحلے میں موڈرینا کی جانب سے ویکسین کی 2 مختلف ڈوز کو آزمایا جائے گا۔مئی کے وسط میں کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ ابتدائی مرحلے میں تمام 8 رضاکاروں کو 2 مختلف مقدار میں ڈوز استعمال کرائی گئی تھیں اور نتائج حوصلہ افزا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آکسفورڈ یونیورسٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی آسترا زینکا کے ساتھ مل کر کووڈ 19 ویکسین پر کام کرہی ہے جس کے لیے نزلہ زکام کے ایک عام وائرس adenovirus کی کمزور قسم کو استعمال کیا جارہا ہے جو چیمپنزی سے لیا گیا۔اس وائرس کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا گیا اور وہ اپنی نقول نہیں بناسکتا، اس ویکسین میں اسپائیک پروٹین کے جینز کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ مدافعتی نظام جسم میں نئے نوول کورونا وائرس کو تباہ کرسکے۔اس کی انسانی آزمائش اپریل میں شروع ہوئی تھی اور 18 سے 55 سال کی عمر کے ایک ہزار سے زائد افراد پر استعمال کیا گیا تھا تاکہ دیکھا جاسکے کہ کس حد تک کارآمد ہے، اس کے نتائج رواں ماہ یا جولائی میں سامنے آسکتے ہیں۔اب محققین دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے 10 ہزار سے زائد بالغ افراد اور بچوں کو شامل کررہے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کے رضاکاروں کو ایک سے 2 ڈوز یا تو کووڈ 19 ویکسین یا ایک لائنسنس ویکسین کے دیئے جائیں گے تاکہ موازنہ کیا جاسکے۔کورونا وائرس سے متاثر دوسرے بڑے ملک برازیل نے بھی کلینیکل ٹرائلز میں شمولیت اختیار کی ہے اور اس کے ڈوز وہاں بھی 2 ہزار رضاکاروں میں آزمائے جائیں گے۔دوسری جانب آکسفورڈ اور دیگر سے معاہدے کے بعد آسترا زینکا 2 ارب سے زائد ڈوز عالمی سطح پر فراہم کرنے کے لیے تیار ہے اور توقع ہے کہ 2020 کے آخر تک 40 کروڑ ڈوز سپلائی ہوجائیں گے جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین اس ویکسین کو ستمبر تک متعارف کرانے کے لیے پرعزم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیزر اور بائیو این ٹیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کمپنیاں 4 ویکسینز کی آزمائش کررہی ہیں اور ہر ایک میں ایم آر این اے استعمال کیا جارہا ہے مگر ہر ایک میں ایم آر این اے کا امتزاج مختلف ہے تاکہ اینتی جینز کو ہدف بناکر اینٹی باڈیز تیار کی جاسکیں۔بی این ٹی 162 نامی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش جرمنی اور امریکا میں ہورہی ہے اور ابھی یہ پہلے مرحلے سے گزر رہی ہے، جس میں تحفظ، امیونٹی کی صلاحیت اور ممکنہ مقدار کی جانچ پڑتال 4 رضاکاروں پر کی جارہی ہے۔ابتدائی طور پر
اس کی آزمائش 18 سے 55 سال کے افراد پر ہورہی ہے اور ایک بار دی گئی ڈوز کی مقدار محفوظ اور موثر ثابت ہوئی تو کمپنی کو توقع ہے کہ بزرگ افراد میں وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجائے گی۔فیزر کی جانب سے پیشگوئی کی گئی ہے کہ 2020 میں لاکھوں ڈوز تیار کرلیے جائیں گے جبکہ 2021 میں کروڑوں ڈوز تیار کیے جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انوویو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس امریکی کمپنی کی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا پہلا مرحلہ 40 رضاکاروں کے ساتھ شروع ہوا تھا، اس میں ڈی این اے ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے تاکہ ایک مخصوص مدافعتی ردعمل پیدا کیا جاسکے۔ایک اسمارٹ ڈیوائس کو معمولی برقی جھٹکے کے لیے استعمال کرکے جلد کے ننھے مسام کھولی جاتی ہیں تاکہ ویکسین کو دیا جاسکے۔ایک بار جب ڈی این اے خلیے کے اندر پہنچ جاتا ہے تو وہ مصنوعی ڈی یان اے کی متعدد نقول بنانے کی ہدایت دیتا ہے اور جسم کے قدرتی مدافعتی ردعمل کو متحرک کردیتا ہے۔ٹرائل کے پہلے مرحلے کے نتائج رواں ماہ متوقع ہیں اور اس کے بعد دوسرے مرحلے کا ترائل شروع ہوگا جبکہ چین اور جنوبی کوریا میں بھی انسانی ٹرائل متوقع ہیں۔اس کمپنی نے متعدد اداروں سے اشتراک کیا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر اس کی تیاری ممکن بنائی جاسکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کین سینو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چین کی اس کمپنی کی جانب سے بیجنگ انسٹیٹوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر کورونا وائرس ویکسین پر کام کیا جارہا ہے اور اس کے لیے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ adenovirus ایڈ 5 استعمال کیا جارہا ہے۔مئی کے آخر میں محققین نے انسانی آزمائش کے پہلے مرحلے کے نتائج جاری کیے تھے جس کے دوران 108 افراد کو کم، درمیانی اور زیادہ 3 ڈوز دی گئی تھیں۔چینی سائنسدانوں نے بتایا کہ نئے نوول کورونا وائرس کو ناکارہ بنانے والے اینٹی باڈیز ویکسین لگنے کے دن رضاکاروں میں صفر فیصد تھے اور 14 دن میں ان میں معتدل اضافہ ہوا جبکہ ویکسین لگنے کے 28 دن بعد ان کی سطح عروج پر پہنچ گئی۔انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ان اینٹی باڈیز کا ارتکاز ڈوز کی طاقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔اسی طرح لگ بھگ تمام رضاکاروں میں وائرس کو دبانے والے اینٹی باڈیز کی سطح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔محققین نے مدافعتی ردعمل کے ایک اور اہم جز ٹی سیلز کی بھی جانچ پڑتال کی جو وائرس کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے۔انہوں نے دریافت کیا کہ ویکسین لگنے کے 2 ہفتے بعد ٹی سیلز کی سطح عروج پر پہنچ گئی۔کمپنی کی جانب سے اپریل میںانسانی ٹرائل کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا تھا اور چین کی جانب سے ستمبر تک ویکسین کو متعارف کرانے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں