طرابلس(پی این آئی) روس نے شام کے بعد ایک اور اہم اسلامی ملک میں اپنا فوجی تسلط قائم کرنے کی کوششیں تیز کر دیں، اقوام متحدہ کی لیک ہونیوالی رپورٹ نے اسلامی دنیا میں ہلچل مچا دی…. اقوام متحدہ کی ایک لیک ہونے والی رپورٹ کے مطابق روسی پرائیویٹ ملٹری گروپ کا نام واگنر ہے۔ جس نے اپنے بارہ سو
فوجی لیبیا میں تعینات کیے ہیں اور یہ باغی کمانڈر جنرل حفتر کی فوج کو مزید طاقتور بنانے اور اس کی مدد کرنے پر مامور ہیں۔ امریکی ذرائع کے مطابق ، روس نے روسی فوجیوں اور باغی جنرل حفتر کی مدد کے لیے وہاں لڑاکا طیارے کھڑے کیے ہیں۔روس نے ان خبروں کو غلط قراردیتے ہوئے مسترد کر دیا-جرمنی کے جنوب مغربی صوبے باڈن ورٹمبرگ کے دارالحکومت اشٹٹ گارٹ میں واقع افریقہ کے لیے امریکی فوجی کمان (افریکم) نے بتایا کہ روسی لڑاکا طیاروں نے روس سے لیبیا جاتے ہوئے رستے میں شام میں لینڈنگ کی تھی۔ شام میں ان جہازوں کو اپنی روسی اصل شناخت کو چھپانے کے لیے پینٹ کیا گیا تھا۔ان جنگی طیاروں کی ذمہ داری جارحانہ حملوں کے لیے نام نہاد روسی واگنر گروپ کے فوجیوں کی خدمت کرنا ہے۔اقوام متحدہ کی ایک لیک ہونے والی رپورٹ کے مطابق روسی پرائیویٹ ملٹری گروپ کا نام واگنر ہے۔ جس نے اپنے بارہ سو فوجی لیبیا میں تعینات کیے ہیں اور یہ باغی کمانڈر جنرل حفتر کی فوج کو مزید طاقتور بنانے اور اس کی مدد کرنے پر مامور ہیں۔افریقی کمانڈر اسٹیفن ٹاؤن سنڈ نے کہاکہ روس واضح طور پر لیبیا میں اپنے حق میں صورت حال تبدیل کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔روس نے طویل عرصے سے لیبیا میں جاری تنازعے میں اپنی شمولیت سے ہر ممکن حد تک انکار کیا تھا، لیکن اب انکار کی کوئی بات کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ افریقہ کی کمانڈ نے 19 مئی کو لیبیا کے ہوائی اڈے الجوفرا کی تصاویر شائع کیں۔ اس پر کئی مگ 29 لڑاکا طیارے دیکھے جاسکتے ہیں۔ امریکی فوج کا کہنا ہے کہ ، نہ ہی جنرل حفتر کی فوج، نہ لیبیا کی قومی فوج اور نہ ہی نجی فوجی کمپنیاں ایسے طیاروں کو اسلحہ فراہم کرنے اور نہ ہی ان کی دیکھ بھال کی اہلیت رکھتی ہیں۔روس نے فوری طور پر امریکی الزامات کو مسترد کردیا۔ انٹرفیکس نیوز ایجنسی کے مطابق اسٹیٹ ڈوما ڈیفنس کمیٹی کے وائس چیئرمین، آندرے کرسوف نے کہا ہے کہ یہ غلط خبریں ہیں۔ یہ خوفناک امریکی کہانیوں میں ایک اضافہ ہے۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے لیبیا میں ایک بار پھر تمام لڑائیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی وزارت کی طرف سے مزید کہا گیا کہ لیبیا کی پارلیمان کے صدر اکیلا صالح کے ساتھ لاوروف کی بات چیت ہوئی ہے ۔وزارت خارجہ نے کہا کہ روسی وزیر خارجہ نے اس امر پر زور دیا
ہے کہ خانہ جنگی والے ملک لیبیا میں تنازعہ کی فریقوں کو بات چیت یا مکالمت کی طرف لوٹنا چاہیے۔کچھ دنوں سے لیبیا میں روسی لڑاکا طیاروں کی گردش کی اطلاعات آرہی ہیں۔ دارالحکومت طرابلس پر قبضے کے لیے لڑائی میں کئی شدید دہچکوں کے بعد ، جنرل حفتر کی فوج کے دستوں نے نئے فضائی حملوں کا اعلان کیا تھا۔حفتر ایک سال سے زیادہ عرصے سے اپنی ایل این اے یونٹس کے ساتھ طرابلس میں داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔ یہی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کا مرکز ہے۔ تاہم، لیبین پارلیمنٹ نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے اور اس نے اپنا مرکز مشرقی لیبیا منتقل کر دیا ہے اور وہاں سے حفتر کی حمایت کرتی ہے۔ اس تنازعہ میں روس کے علاوہ، کئی دیگر بیرونی ممالک بھی شامل ہیں۔اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کی پشت پناہی ترکی اور قطر کر رہے ہیں جبکہ جنرل حفتر کی فوج کی معاونت روس اور متحدہ عرب امارات کر رہے ہیں۔روسی صدر ولادیمیر پوٹن بارہا کہہ چکے ہیں کہ لیبیا میں کئی ممالک سے آئے ہوئے فوجی تعینات ہیں۔ بالفرض اس دستے میں روسی فوجی بھی شامل ہیں تو یہ روسی ریاست کی طرف سے تعینات نہیں کیے گئے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں