نئی دہلی (پی این آئی)چین اور بھارت کے مابین سرحدی کشیدگی کو فوجی سطح پر حل کرنے کی کوششیں ناکام، سابق بھارتی فوجی سربراہ نے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا۔ سابق انڈین آرمی چیف کا کہنا تھا کہ یہ کشیدگی کافی طویل عرصہ چل سکتی ہے کیونکہ اس کے پیچھے کارفرما عوامل پہلے سے کہیں مختلف ہیں
اور ان کی نوعیت تکنیکی سے زیادہ سیاسی ہے۔یاد رہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی نے حال ہی میں ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا ہے اور لداخ میں پینگونگ ٹیسو، گالوان وادی اور دیمچوک کے مقامات پر دونوں افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے جبکہ مشرق میں سکم کے پاس بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے ہیں۔موجودہ سرحدی تنازع اس قدر کشیدہ ہے کہ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے منگل کے روز بری، بحری اور فضائیہ تینوں افواج کے سربراہوں اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔سابق انڈین آرمی چیف وی پی ملک کے مطابق چین کی جانب سے انڈیا کے سرحدی علاقے میں مداخلت کی وجوہات جاننے سے قبل یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ معاملہ اس ہی مخصوص علاقے میں کیوں پیش آ رہا ہے اور اِس وقت ہی کیوں انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انڈیا لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے علاقے میں موجود اپنے انفراسٹرکچر کو گذشتہ کئی برسوں سے بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاہم چین اس پر نالاں ہے۔حال ہی میں وہاں ایک دریا پر (انڈین) آرمی انجینیئرز نے ایک پٴْل تعمیر کیا ہے، جس کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا گیا تھا۔ اس علاقے پر چین بھی کبھی کبھی اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ مگر ہمارے لیے یہ راستہ اس لیے اہم ہے کہ یہ شیراک، دولت بیگ سے ہوتا ہوا قراقرم پاس تک جاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چین کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ فوجی سرگرمیوں کے لیے اس علاقے کو، جسے وہ (چین) اپنا مانتے ہیں مگر ہم (انڈیا) سمجھتے ہیں کہ وہ متنازعہ علاقہ ہے، اپنے مصرف میں لائیں اور چین گاہے بگاہے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں جاری رکھتا ہے۔سابق آرمی چیف کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے آئینی ڈھانچے میں تبدیلی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔جب ہم نے جموں و کشمیر (انڈیا کے زیر انتظام کشمیر) میں آئینی تبدیلی کی تھی اور وہاں آئین کے آرٹیکل 35 A کا نفاذ کیا تھا تو چین نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یہ ان کو قابل قبول نہیں ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ چین کا پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک اشتراک ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں