سمندرو ں میں تیل لے جانے والے ایرانی جہازوں کی حفاظت کس ملک کی فوج کرے گی؟ معاہدہ طے پا گیا

کراکس(پی این آئی) سمندرو ںمیںتیل لے جانے والے ایرانی جہازوں کی حفاظت کس ملک کی فوج کرے گی؟ معاہدہ طے پا گیا۔۔۔امریکی پابندیوں کے باعث ایران کو دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا تیل فروخت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم اس بار ایک ایسا ملک ایران کی مدد کو آیا ہے جو خود بھی امریکی پابندیوں کاشکار

ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائررکھنے ولے ملک وینزویلا کو تیل درآمد کرنا پڑ رہا ہے اور اس ضمن میں اس کے ایران کے ساتھ معاملات طے پاچکے ہیں۔ تاہم تیل کی ایران سے وینزویلا تک ترسیل ایک اہم مرحلہ ہے کیونکہ دونوں ملکوں کو خدشہ ہے کہ بین الاقومی سمندروں میں موجود امریکی فوج ایرانی تیل بردار جہازوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے، اس لیے وینزویلا نے اعلان کیا ہے کہ ایرانی تیل بردار جہازوں کی حفاظت اس کی فوج کرے گی۔ایران کے پانچ تیل بردار جہاز اس وقت گہرے سمندروں میں ہیں اور آئندہ چند دنوں میں وہ وینزویلا پہنچ جائیں گے۔وینزویلا کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ان ٹینکروں کے وینزویلا کی سمندری حدود میں پہنچنے پر ان کا استقبال کیا جائے گا۔وینزویلا کی سمندری حدود اس کے ساحلوں سے 370 کلو میٹر دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔امریکہ نے وینزویلا اور ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہ ان جہازوں کو روکنے کے بارے میں غور کر رہا ہے۔ایران کے پانچ تیل بردار بحری جہاز، فورچون، فورسٹ، پٹونیا، فیکسن اور کلاول جن پر ڈیڑھ ملین بیرل تیل بھرا ہوا ہے اس ماہ کے شروع میں نہر سویز پار کی تھی اور ان کی منزل وینزویلا ہے۔وینزویلا کے وزیر دفاع جنرل ولادمیر پیڈرینو نے سرکاری ٹی چینل پر کہا کہ جب یہ جہاز ملک کی سمندری حدود میں داخل ہوں گے تو بولیویرن آرمڈ فورسز کی جنگی کشتیاں اور ہوائی جہاز ان کو اپنی حفاظت میں لے لیں گے اور ایران کے عوام کا تعاون اور اظہار یکجہتی کرنے کا شکریہ ادا کریں گے۔وینزویلا کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب سیموئل موکاڈا کا نے کہا ہے کہ یہ تیل بردار جہاز سویلین جہاز ہیں اور وہ ہمارے عوام کے لیے اہم رسد لے کر آ رہے ہیں اور ایک ایسے ملک سے آ رہے ہیں جو ہمارے ملک کے ساتھ قانونی کاروبار کر رہا ہے۔دوسری جانب ایران نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر اس کے جہازوں کو روکا گیا تو وہ انتقامی کارروائی کرے گا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں