لندن(پی این آئی)لندن کے رائل فری ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ یعنی آئی سی یو کی چیف نرس جیونیتا نتلا نے برطانوی نشریاتی ادارےکو بتایا ہے کہ ’وینٹیلیٹر کے بٹن کو بند کرنا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ میں کسی کی موت کی ذمہ دار ہوں۔‘جنوبی انڈیا میں پیدا ہوئی
نتلا گذشتہ 16 برس سے انگلینڈ کے صحت کے قومی ادارے یعنی این ایچ ایس میں آئی سی یو میں سپشلسٹ نرس کے طور پر کام کررہی ہیں۔42 سالہ نتالا نے نشریاتی ادارے کو بتایا ’وینٹی لیٹر بند کرنا بھی میرے پیشے کا حصہ ہے۔‘اپریل کے دوسرے ہفتے میں ایک مصروف صبح نتلا اپنی شفٹ پر پہنچی تو آئی سی یو کے رجسٹر کے مطابق انھیں کووڈ 19 کی زیر علاج ایک مریضہ کا وینٹی لیٹر بند کرنا تھا۔مریضہ ایک کمیونٹی ہیلتھ نرس تھیں اور ان کی عمر 50 سال سے زیادہ تھی۔ نتلا نے مریضہ کی بیٹی کو اس عمل کے بارے میں سمجھایا۔نتالا نے بتایا کہ ’میں نے ان کو سمجھایا کہ ان کی والدہ کو کوئی درد نہیں ہے۔ وہ آرام سے سو رہی ہیں۔ میں نے ان کی والدہ کی خواہشات اور ان کی مذہبی رسومات کے بارے میں پوچھا۔‘آئی سی یو میں ایک کے بعد ایک لائن میں بیڈ لگے ہوتے ہیں۔ اس مریضہ کے آس پاس دوسرے ایسے مریض تھے جو سنجیدہ طور پر بیمار تھے اور جو بے ہوش تھے۔نتلا نے بتایا کہ ’نرس وہیں تھیں جہاں آٹھ بیڈ لگے ہوئے تھے۔ وہاں موجود سبھی مریض تشویشناک حالت میں تھے۔ میں نے پردہ گرایا اور تمام الارم (خطرے کی گھنٹی) بند کر دیے۔‘انھیں ایسا لگا جیسے پوری میڈیکل ٹیم کچھ لمحات کے لیے مکمل طور پر ٹھہر گئی۔ نتلا نے مزید بتایا کہ نرسوں نے آپس میں بات کرنا بند کر دیا۔ مریضوں کی عزت اور ان کی سہولیات ہماری اولین ترجیج ہوتی ہے۔‘اس کے بعد نتلا نے مریضہ کے قریب فون رکھ دیا اور ان کی بیٹی کو بولنے کے لیے کہا۔ اس فون کال کے بارے میں نتلا نے بتایا کہ ’میرے لیے صرف ایک فون کال تھی لیکن متاثرہ شخص کے خاندان کے لیے یہ بہت اہم اور بڑی بات ہوتی ہے۔ وہ ویڈیو کال کرنا چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے آئی سی یو کے اندر موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔‘وینٹی لیٹر کا بٹن بندمریضہ کے خاندان والوں کے اصرار پر نتلا نے ایک مخصوص میوزک ویڈیو کمپیوٹر پر چلائی۔ اس کے بعد نتالا نے وینٹی لیٹر بند کرنے کے لیے بٹن بند کر دیا۔نتالا نے بتایا کہ ’میں بغل میں بیٹھ کر ان کے گزر جانے کا انتظار کر رہی تھی۔‘سانس لینے میں مدد فراہم کرنا اور علاج کو روکنے کا فیصلہ میڈیکل ٹیم بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہے۔ اس میں مریض کی عمر، صحت کی حالت، علاج کا اثر اور صحتیابی کی امید کو دھیان میں رکھا جاتا ہے۔نتلا کے وینٹی لیٹر کے بٹن بند کرنے کے پانچ منٹ بعد مریضہ کی موت واقع ہو گئی۔ نتلا نے بتایا کہ ’میں مانیٹر پر چمکتی لائٹ کو دیکھ رہی تھی۔ دل کی حرکت صفر ہونے کے بعد سکرین پر فلیٹ لائن (سیدھی لکیر) نظر آنے لگتی ہے۔‘نتلا نے اس کے بعد جسم میں ادویات پہنچانے والی ٹیوب ہٹائیں۔ اس سب سے انجان مریضہ کی بیٹی فون پر لگاتار بات کیے جا رہی تھی۔ وہ فون پر کچھ دعا بھی کر رہی تھی۔ اپنے دل پر پتھر رکھ کر نتلا نے اس کو بتایا کہ اب ان کی والدہ اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔نتلا ان نرسوں میں سے ہیں جن کی ذمہ داری مریض کے مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی۔انھوں نےنشریاتی ادارے کو مزید بتایا کہ ’اپنے ایک ساتھی کے ساتھ میں نے انھیں بیڈ پر غسل دیا، انھیں سفید کفن میں لپیٹا۔ ان کے مردہ جسم کو باڈی بیگ میں رکھا۔ بیگ بند کرنے سے پہلے ان کے ماتھے پر صلیب کا نشان بنایا۔‘کورونا وائرس سے قبل علاج بند کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر اور مریض کے رشتہ دار آمنے سامنے بات کیا کرتے تھے۔ لائف سپورٹ بند کرنے سے پہلے مریض کے رشتہ داروں کو آئی سی یو میں آنے کی اجازت تھی۔لیکن دنیا کے بیشتر حصوں میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔نتلا ایسے مریضوں کو دیکھتی ہیں، ان کی مدد کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں کہ اس وائرس سے ٹھیک ہو کر وہ صحتیاب ہوجائیں کیونکہ نتلا کے بقول ’کسی کو اس طرح اکیلے مرتے دیکھنا بہت تکلیف دہ عمل ہے۔‘نتلا مریضوں کو سانس لینے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھتی ہیں اور انھیں تڑپتا دیکھتی ہیں۔ اور یہ سب دیکھنا ایک بے حد تکلیف دہ بات ہوتی ہے۔ہسپتالوں میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں 34 بستر بڑھائے گئے ہیں۔ اب وہاں 60 بیڈ لگائے گئے ہیں اور ان سب پر مریض ہیں۔آئی سی یو میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے 175 نرسیں 24 گھنٹے موجود ہیں۔نتلا نے بتایا ہے کہ ’عام طور پر آئی سی یو میں ایک مریض
کے ساتھ ایک نرس کو رکھا جاتا ہے۔ لیکن اب اوسطاً تین مریضوں کے لیے ایک نرس ہے۔ حالات خراب ہونے پر چھ مریضوں کے لیے ایک نرس کو رکھا جاتا ہے۔‘ان کی ٹیم کی بعض نرسوں میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوئی ہیں جس کے بعد ان نرسوں کو خود ساختہ تنہائی میں بھیجا گیا ہے۔ ہسپتالوں میں نئی نرسوں کی بھرتی کے لیے تربیت دی جا رہی ہے۔نتلا بتاتی ہیں کہ ’شفٹ شروع ہونے سے قبل ہم لوگ ہاتھ ملاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنا خیال رکھنے اور حفاظت برتنے کا کہتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے پر نظر رکھتے ہیں۔ ہم یہ یقینی بناتے ہیں کہ سب نے دستانے، ماسک اور حفاظتی سامان پہنا ہو۔‘نتلا کہتی ہیں کہ مرنے والوں کی خدمت کرنے سے انھیں بحران کا سامنا کرنے میں مدد ملی ہے۔ برطانیہ کے آئی سی یو میں ہر روز ایک موت واقع ہو رہی ہے۔ ایک عالمی وبا سے قبل کی اوسط سے کافی زیادہ ہے۔’یہ بہت مشکل ہے۔۔۔ کبھی کبھار اپنے ڈر و خوف کو چھپانا پڑتا ہے۔ مجھے بُرے خواب بھی آتے ہیں، سونے میں دشواری ہوتی ہے۔ مجھے ڈر رہتا ہے کہ وائرس نہ لگ جائے۔ سب ڈرے ہوئے ہیں۔‘گذشتہ برس وہ ٹی بی کی وجہ سے کئی ماہ تک گھر پر رہی تھیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کے پھیپھڑے کتنے کمزور ہیں۔’لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ کو کام نہیں کرنا چاہیے لیکن یہ تو عالمی وبا ہے۔ میں سب چھوڑ کر اپنا کام کرتی ہوں۔‘’شفٹ کے بعد یہ بھی سوچتی ہوں کہ اس دوران اگر کوئی مریض مر گیا ہو، میں کوشش کرتی ہوں کہ اس وقت سوئچ آف کروں جب ہسپتال سے باہر جانے لگوں۔‘بی بی سی سے بات کرنے کے بعد جیونیتا نتلا سے کہا گیا ہے کہ وہ گھر سے کام کریں کیونکہ ان کی اپنی صحت کو خطرہ لاحق ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ انتظامی امور کے کام کر کے گھر سے مدد کرنے کی کوشش کریں گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں