بیجنگ (پی این آئی)کرونا وائرس کوتیارتو نہیں کیا البتہ ہم نے کرونا پرتجربات کئے ہیں وہان لیبارٹری کا اقرار، چین مارا گیا ، نئی جنگ شروع ہوسکتی ہے،اطلاعات کے مطابق چینی شہر ووہان کے انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی نے پہلی بار وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی صداقت نہیں کہ کورونا وائرس کو ان کی
لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔مگریہ بات ٹھیک ہے کہ وہان میں کرونا وائرس پرتجربات اورتحقیق ضرور ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق دنیا بھر میں 19 اپریل کی سہ پہر تک 23 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کرنے اور ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد انسانی زندگیوں کا خاتمہ کرنے والے کورونا وائرس کا آغاز ووہان سے دسمبر 2019 کے وسط میں ہوا تھا۔کورونا وائرس کے شروع ہوتے ہی یہ افواہیں شروع ہوگئی تھیں کہ ممکنہ طور پر اس وائرس کو لیبارٹری میں تیار کیا گیا، مگر تاحال ایسے دعوے کرنے والوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔دنیا بھر کے ماہرین، سیاستدانوں اور عام افراد میں کورونا وائرس کو قدرتی بیماری سمجھنے کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم ایسے اختلافات میں گزشتہ ہفتے سے شدت دیکھی جا رہی ہے۔گزشتہ ہفتے امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٖغیر واضح طور پر کہا تھا کہ امریکی حکومت اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ کیا واقعی کورونا وائرس چین کی کسی لبیارٹری میں تیار ہوا؟اسی حوالے سے امریکی نشریاتی اداروں سی این این اور فاکس نیوز نے اپنی رپورٹس میں امریکی حکومت اور خفیہ اداروں کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ اگرچہ زیادہ تر امریکی حکومتی عہدیداروں اور سائنسی ماہرین کو یقین ہے کہ کورونا لیبارٹری میں تیار نہیں ہوا، تاہم اس باوجود امریکی حکومت نے اس معاملے کی تفتیش کا حکم دے دیا ہے۔واشنگٹن پوسٹ نے بھی اسی حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ چین میں موجود امریکی سفارت خانے نے 2018 میں ہی امریکی محکمہ خارجہ کو بھیجے گئے پیغامات میں عندیہ دیا تھا کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ میں غیر معمولی تحقیقات ہو رہی ہیں اور وہاں پر وائرس سے بچنے کے سخت اقدامات بھی نہیں۔فاکس نیوز کے مطابق یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ دراصل ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی کی لیبارٹری میں کورونا جیسے ہی کسی وائرس پر تحقیق کرنے والا ایک رکن اس وائرس میں مبتلا ہوگیا تھا جو ووہان کی گوشت مارکیٹ گیا، جس کے بعد اس متاثرہ شخص سے وائرس پہلے گوشت مارکیٹ میں پھیلا اور پھر پورے شہر میں، تاہم اس حوالے سے بھی کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔مذکورہ رپورٹس آنے کے بعد چینی وزارت خارجہ نے کورونا وائرس کے لیبارٹری میں تیاری سے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی ادارہ صحت بھی کہہ چکا ہے کہ کورونا کی لیبارٹری میں تیاری کے کوئی ثبوت نہیں۔ایسی رپورٹس آنے کے بعد امریکی و اسرائیلی میڈیا میں بھی اس حوالے سے مزید رپورٹس سامنے آئیں جن میں بتایا گیا کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی کو امریکی و کینیڈین حکومت نے بھی تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کیے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ دونوں حکومتوں نے ووہان لیبارٹری کو کورونا وائرس کے لیے فنڈز دیے یا کسی اور تحقیق کے لیے رقم فراہم کی۔اسرائیلی میڈیا نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ چین میں کورونا پھیلنے سے قبل ہی چین میں موجود امریکی سفارتخانے اور خفیہ اہلکاروں نے امریکی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ جلد ہی ایک وائرس دنیا میں پھیلنے والا ہے اور بعد ازاں اس خبر سے اسرائیل کو بھی آگاہ کردیا گیا۔لیکن چینی حکام ایسے الزامات اور سازشی مفروضوں کو مسترد کرتے آئے ہیں اور اب ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی کے سربراہ کا بیان بھی سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کورونا کو لیبارٹری میں تیار کرنے کے الزامات کو مسترد کردیا۔امریکی نشریاتی ادارے این بی سی کے مطابق ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی کے سربراہ ڈاکٹر یوآن زمنگ نے
کورونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار کرنے کے سازشی مفروضوں کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ ناممکن اور جھوٹ ہے کورونا کو ہمارے ادارے کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔ڈاکٹر یوآن زمنگ کا کہنا تھا کہ یہ گمراہ کن باتیں ہیں کہ کورونا کو ہماری لیبارٹری میں تیار کیا گیا، ایسے باتیں پھیلا کر لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے، ایسا ممکن ہی نہیں کہ کورونا ہماری لیبارٹری میں تیار ہوا ہو، اس کے کوئی بھی ثبوت نہیں ہیں اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی کے سربراہ نے چینی سرکاری نشریاتی ادارے سی جی ٹی این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی لیبارٹری کا کوئی بھی رکن کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہوا تھا، ایسی باتوں میں کوئی سچائی نہیں اور وہ اس بات پر حیران ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کورونا ان کی لیبارٹری میں بنا اور پھر وہاں سے پھیلا۔ڈاکٹر یوآن زمنگ کے مطابق پوری دنیا جانتی ہے کہ ہمارا ادارا کس طرح کی تحقیقات پر کیسے کام کرتا ہے، ہماری لیبارٹریز میں کورونا وائرس جیسے دیگر خطرناک وائرسز پر تحقیقات ہوتی ہیں لیکن ایسا کوئی راستہ نہیں کہ کورونا ہماری لیبارٹری میں تیار ہوا اور وہیں سے پھیلا۔واضح رہے کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی دنیا میں حیاتیاتی تحقیق کے حوالے سے چند نامور اداروں میں سے ایک ہے اور یہ تحقیقاتی ادارہ اسی شہر کی گوشت مارکیٹ سے 20 کلو میٹر سے بھی کم فاصلے پرموجود ہے۔ووہان شہر کا شمار نہ صرف چین بلکہ دنیا کے بڑے شہروں میں بھی ہوتا ہے، وہاں کی آبادی سوا ایک کروڑ تک ہے، اسی
شہر میں متعدد طبی، حیاتیاتی و ٹیکنالوجی تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ابتدائی طور پر کورونا وائرس کے کیسز اسی شہر میں رپورٹ ہوئے تھے اور یہاں پر ڈھائی ماہ کے دوران 80 ہزار سے زائد افراد کورونا سے متاثر ہوئے تھے اور اسی دوران ووہان شہر میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا تھا۔ووہان میں مارچ 2020 کے آغاز میں ہی چینی حکام نے کورونا پر قابو پالیا تھا اور جب ووہان سے لاک ڈاؤن ختم کیا جا رہا ہے تھا تو دنیا کے باقی ممالک میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کورونا دنیا بھر میں پھیل گیا اور دیگر ممالک میں چین سے زیادہ مریض اور وہاں سے زیادہ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔کورونا وائرس سے سب زیادہ متاثرہ ملک امریکا ہے، جہاں پر 19 اپریل کی سہ پہر تک کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ساڑھے 7 لاکھ جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 40 ہزار تک جا پہنچی تھی۔مجموعی طور پر دنیا کے 190 کے قریب ممالک میں 19 اپریل کی سہ پہر تک کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 23 لاکھ سے زائد جب کہ ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں