اسلام آباد(پی این آئی)عالمگیر وبا کورونا وائرس کووڈ-19 نہ ہی رنگ دیکھتا نہ ہی نسل، اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں کہ آیا یہ ملک دنیا کی سپر پاور ہے یا اس ملک کے مالی حالت سب سے بہتر ہیں۔چونکہ کورونا وائرس اب دنیا کے 190 سے زائد ممالک اور علاقوں تک میں پھیل چکا ہے اور اس نے دنیا کی 100 سے
زائد نامور شخصیات کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔جس طرح کووڈ-19 نے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے بالکل اسی طرح وائرس نے دنیا کے بے شمار سیاسی رہنماؤں کی زندگیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔عالمی سطح پر سیاست دان کس طرح اس خطرناک وبا کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کووڈ-19 یعنی کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے دنیا کے پہلے سربراہ مملکت تھے اور گزشتہ ہفتے ان کی طبیعت بگڑنے پر انہیں لندن کے اسپتال میں انتہائی نگہداشت یعنی آئی سی یو میں منتقل کیا گیا تھا۔اگر برطانوی وزیر اعظم کی صحت کی بات کی جائے تو ذاتی طور پر انہوں نے وائرس کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ایک اسپتال میں کووڈ-19 کے مریضوں سے ملاقات کرنے کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے 3 مارچ کے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ میں مصافحہ کرتا رہوں گا۔بورس جانسن اس بات پر بار بار زور دیتے رہے کہ متعدد بار ہاتھ دھونا ہی وائرس سے بچاؤ کے لیے ایک بہترین حل ہے اور ان کی حکومت کی جانب سے بھی لوگوں کو یہی حکم دیا جا رہا تھا کہ گھروں میں ہی رہیں اور اس کے باوجود بھی یہ متعدد ملاقاتیں کرتے نظر آئے۔بورس جانسن نے 27 مارچ کو بتایا کہ ان میں کووڈ-19 کی ہلکی علامات ظاہر ہوئی جس کے بعد انہوں نے خود کو 7 دن کے لیے قرنطینہ میں داخل کرلیا تھا۔تاہم برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو 2 اپریل کو ڈواننگ اسٹریٹ کے گیٹ نمبر 11 کے پاس کھڑے دیکھا گیا جہاں کھڑے ہو کر انہوں نے ہیلتھ ورکرز کی حوصلہ افزائی کی تھی۔بعدازاں بورس جانسن کو 5 اپریل کو اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں طبیعت بگڑنے پر انہیں آئی سی یو میں بھی منتقل کیا گیا جب کہ 12 اپریل کو انہیں اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا جس کے بعد اب وہ مکمل صحت یابی کے لیے اپنی رہائش گاہ چیکرز میں ہیں۔ورونا وائرس کی وجہ سے سب بڑی سیاسی تبدیلی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے آئی جہاں انہیں کووڈ-19 کی وجہ سے اپنی تمام تر انتخابی ریلیاں منسوخ کرنا پڑیں۔کورونا کی وجہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی نقل و حرکت بھی متاثر ہوئی ہے وہ ہر ہفتے کی آخر میں گولف کلب بھی جایا کرتے تھے لیکن اب وہ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس میں رہنے پر ہی مجبور ہیں۔چند امریکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر نومبر تک دوبارہ انتخابات کے خواہاں ہیں جب کہ وہ اب اپنی روزانہ کی پریس کانفرنسز کو انتخابی مہم میں بھی تبدیل کر رہے ہیں۔اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے عوام کو ہجوم سے بچنے اور سماجی دوری اختیار کرنے کو کہا ہے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب بھی وائٹ ہاؤس کے پریس روم میں موجود ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ ماہرین اور سینئر عہدیداروں کے ایک گروہ کے ہمراہ ہی دیکھا جاتا ہے۔مارچ کے مہینے میں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی خود کو قرنطینہ میں اس وقت داخل کیا تھا جب ان کی اہلیہ صوفی ٹروڈو میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔جسٹن ٹروڈو کی اہلیہ میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد انہوں نے اپنے تینوں بچوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بھی ادا کی اور ساتھ اپنا کام بھی گھر میں رہ کر کرنا شروع کردیا۔جسٹن ٹروڈو کے ایک مشیر بین چن کے مطابق ایک مرتبہ وزیر اعظم کو میٹنگ میں تاخیر ہوئی تھی اور انہوں نے فون پر بتایا کہ وہ اپنے بچے کو نہلا رہے تھے اسی انہیں دیر ہوئی۔جیسے ہی جسٹن ٹروڈو کی اہلیہ صحت یاب ہوکر بچوں کو ہیرنگٹن جھیل کے قریب کینڈین لیڈرز کی سرکاری پناہ گاہ لے گئیں تو اس کے بعد وزیر اعظم نے 8 اپریل کو پارلیمنٹ کے کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی تاہم انہوں نے کہا ہے کہ وہ گھر سے ہی کام جاری رکھیں گے۔جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے دو ہفتے قرنطینہ مکمل کرنے کے بعد 3 اپریل سے دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ 65 سالہ انجیلا میرکل نے 22 مارچ کو خود کو قرنطینہ کرنے کا فیصلہ کیونکہ انہیں نیوموکوکل انفیکشن کی ویکسین لگانے والے ڈاکٹر میں کووڈ-19 کی تشخیص ہوئی تھی۔حکومتی ترجمان کے مطابق جرمن چانسلر کے متعدد مرتبہ ٹیسٹ کیے گئے جو کہ منفی آئےتھے جب کہ قرنطینہ میں رہنے کے باوجود بھی جرمن چانسلر ویڈیو لنک کے ذریعے سے میٹنگز میں شرکت کرتی رہیں۔روسی صدر ولادی میر پیوٹن بھی گھر میں ہی رہ کر اپنے تمام تر فرائض سر انجام دے رہے ہیں جب کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام عملے کے باقاعدگی سے کووڈ-19 کے ٹیسٹ بھی کیے جارہے ہیں۔روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف کے مطابق ولادی میر پیوٹن مواصلات کے لیے خفیہ مواصلاتی چینلز کا استعمال کرتے ہیں جب کہ وہ صدارتی رہائش گاہ پر ہی کام کر رہے ہیں۔ وہ سختی سے سماجی دوری اختیار کیے ہوئے ہیں دوسروں سے مصافحہ کرنے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔جاپانی وزیر اعظم شنزو ابی نے اپنی ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ آج کل گھر پر آرام کر رہے ہیں اور لوگوں کو بھی گھروں میں رہنےکی تلقین کر رہے ہیں۔جاپانی وزیر اعظم کی جانب سے شیئر کی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے پالتو جانور کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے چائے بھی پی رہے ہیں۔فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جنہوں نے لاک ڈاؤن میں 11 مئی تک توسیع کی ہے، ملک کےوزیرثقافت،متعدد قانون سازاور ان کے بعض ملازمین میں کورونا وائرس کے مثبت نتائج آنے کے باوجود بھی خود کو قرنطینہ میں داخل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔فرانسیسی صدر کو متعدد میٹنگز اور محققین سے ملاقات کے دوران بغیر ماسک کے دیکھا گیا جب کہ انہیں مصافحے سے گریز اور اپنے اپنے ہاتھوں کو بار بار سینیٹائزڈ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں