واشنگٹن(پی این آئی) امریکی یونیورسٹی ہاروڈ کی ایک نئی تحقیق میں خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے باجود کورونا وائرس کے پھیلنے کے پیش نظر 2022ءتک سوشل ڈسٹینسنگ کی ضرورت پڑ سکتی ہے کیونکہ وائرس کے اثرات کم از کم اگلے دو سال تک کرہ ارض پر رہنے کے امکانات ہیں. ہارورڈ
یونیورسٹی کے محققین کے مطابق ٹھنڈے موسم میں ایک عام نزلہ، زکام کی صورت میں لگنے والا نیا نول کووڈ 19ایک موسمی وبا کی صورت اختیار کر سکتا ہے، بدلتے اور ہر سال آنے والے ٹھنڈے موسم میں جیسے دوسرے عام فلو، وائرل کی شکایت ہو جاتی ہے اسی طرح کورونا وائرس بھی ہر سال ٹھنڈے مہینوں میں پلٹ کر واپس آ سکتا ہے۔تحقیق کرنے والوں کے مطابق تا حال اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے اس وائرس کی یہ حالیہ لہر پوری دنیا سے ختم کب ہوگی مگر تحقیق کے نتیجے کے بعد یہ با وثوق طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ وائرس ایک بار کے لاک ڈاؤن یا سوشل ڈسٹنسنگ سے ختم نہیں ہوگا. امریکی یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلتا جائے جب تک کہ اس کی ویکسین تیار نہیں ہو جاتی، اسی لیے سوشل ڈسٹینسنگ اور لاک ڈاؤن کو ہی علاج کے طور پر استعمال کرتے ہوئے زیادہ وقت دینا ہوگا۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹینسنگ بڑھانے سے ہی ہسپتالوں میں طبی عملے اور ویکسین تیار کرنے والے سائنسدانوں اور ماہرین کو مدد مل سکتی ہے کہ وہ اپنا کام اس دورن سہی سے کریں، لاک ڈاؤن ختم کرنے یا سوشل ڈسٹینسنگ کا فارمولا نہ اپنانے سے یہ وابائی امراض پھیلتا چلا جائے گا اور حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں. دوسری جانب فرانس کے سائنسدانوں نے دعوی کیا ہے کہ کورونا وائرس کو مکمل طورپر ختم کرنے کے لیے پانی کو تقریبا ً نقطہ ابال جتنا درجہ حرارت درکار ہوتا ہے‘فرانسیسی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کو اگر 60 ڈگری سینٹی گریڈ پر ایک گھنٹے تک تپش دیں تو وائرس میں پھر بھی ایک سے دو اور دو سے چار میں تقسیم ہوکر بڑھنے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے تاہم جب وائرس کو 92 ڈگری سینٹی گریڈ پر 15 منٹ تک تپش دی گئی تو وہ بالکل غیرفعال ہوگیا۔امریکا کی نیشنل اکادمی آف سائنسز نے وائٹ ہاؤس کو پچھلے ہفتے آگاہ کیا تھا کہ موسم گرما کے درجہ حرارت سے کورونا وائرس کے پھیلاؤپر اثرنہیں پڑے گا‘اس سے قبل قیاس آرائی کی جاتی رہی تھی کہ گرمی کی شدت بڑھنے سے کورونا وائرس خود بخود ختم ہوجائے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں