لندن(پی این آئی)برطانوی اخبار نے مستقبل میں وبائی امراض کا خطرہ کم کرنے کے لیے جنگلی حیات کی مارکیٹوں اور جنگلی جانوروں کی تجارت پر پابندیاں سخت کرنے کے لیے عالمی سطح پر کوششوں پر زور دیا ہے۔جنگلی حیات کی مارکیٹوں اور انسانی صحت کو لاحق خطرات کے درمیان تعلق ثابت ہو چکا ہے۔ جیسا کہ
ہم کرونا (کورونا) وائرس کی وبا دیکھ رہے ہیں، جس میں دنیا بھر کو انتہائی تکلیف دہ صورت حال میں مبتلا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اب تک 15 لاکھ افراد سے زیادہ افراد بیماری کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا چین کے شہر ووہان میں واقع ‘زندہ جانوروں’ کی مارکیٹ سے شروع ہوئی، جہاں بیرون ملک سے لائے گئے جانور بیچے گئے۔ کرونا وائرس ان جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ گذشتہ برس ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ دنیا بھر میں ریڑھ کی ہڈی والے ہر پانچ قسموں میں سے ایک قسم کے جانوروں کی پالتو جانوروں یا مصنوعات کے طور پر تجارت کی جاتی ہے۔ اس تجارت کی وجہ سے نو ہزار اقسام کے جانور معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔دی انڈپینڈنٹ کی مہم نے اقوام متحدہ کے شعبہ حیاتیاتی تنوع کی سربراہ ایلزبتھ مرومامریمہ اور جنگلی حیات کے تحفظ پر کام کرنے والی معروف شخصیت اور اقوام متحدہ کی ‘امن کی پیامبر’ ڈاکٹر جین گڈال ڈی بی ای کے ساتھ مل کر حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ جنگلی جانوروں کی تجارت، فروخت اور خوراک کے طور پر استعمال پر سخت پابندی لگانے کے لیے کام کریں۔ڈاکٹر گڈال نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ‘ہماری طرح جانوروں کے بھی جذبات ہوتے ہیں۔ وہ خوف اور مایوسی محسوس کر سکتے ہیں۔ ان میں تشخص ہوتا ہے اور وہ حیران کن طور پر ذہین ہوتے ہیں۔’ہمیں قدرتی دنیا کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ایسے سیارے پر معاشی ترقی کے لیے قدرتی وسائل کو مسلسل استعمال نہیں کر سکتے جہاں قدرتی وسائل محدود ہیں۔’ہم جو سلوک جانوروں کے ساتھ کر رہے ہیں اگر یہ جاری رہا تو اس کے ہمارے اوپر جوابی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ ہوئے بھی ہیں۔دی انڈپینڈنٹ کے لیے لکھتے ہوئے مریمہ نے کہا: ‘جنگلی حیات کی عالمی تجارت اور زندہ جانوروں کی مارکیٹیں، جہاں زندہ مچھلیاں، گوشت اور جنگلی جانور بیچے جاتے ہیں، جانوروں کی بیماری کی انسان میں منتقلی کے خطرے کے اہم عوامل ہیں۔’اس طرح مختلف ملکوں نے خوراک کی منڈیوں میں زندہ جانوروں کی تعداد کم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ان سے بیماری کے وبا میں تبدیل ہونے کا خطرہ بڑی حد تک کم ہو سکتا ہے۔ ‘جنگلی جانوروں کی فروخت اور بطور خوراک استعمال پر زیادہ سختی کرنے کے عمل اور صحت عالمی ضوابط کے نفاذ کا دائرہ دنیا بھر میں وسیع کیا جانا چاہیے۔جانوروں کے تحفظ اور فلاح وبہبود کے تقریباً 241 گروپوں نے عالمی ادارہ صحت کے رہنماؤں سے کہا کہ وہ ‘جنگلی حیات کی مارکیٹوں پر مستقل پابندی اور جنگلی حیات کی تجارت میں انتہائی احتیاط برتے جانے’ کے لیے اقدامات کریں۔ہم پہلے ہی یہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ اسے سے پہلے جانوروں کی بیماریاں، جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئیں، انہیں جنگلی حیات سے جوڑا گیا ہے۔ ان بیماریوں میں ایچ
آئی وی، ایبولا، سارس، مرس اور زیکا وائرس شامل ہیں۔دوہزار تین میں سارس وائرس کی وبا کے دوران چین نے لاکھوں مشک بلاؤں (civet) کو ہلاک کردیا اور جنگلی حیات کی تجارت پر پابندی لگا دی۔ شبہ تھا کہ وائرس اسی جانور سے پھیلا، لیکن یہ پابندی دیرپا ثابت نہ ہوئی اور آنے والے برسوں میں اس کی تجارت دوبارہ شروع ہو گئی۔فروری میں چین نے جنگلی حیات کی تجارت پر مکمل پابندی لگا دی۔ اس ہفتے دو جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امریکی قانون سازوں کے ایک گروپ نے خبردار کیا ہے کہ اس پابندی میں خامیاں موجود ہیں۔ یہ خامیاں جانورں کی ادویات اور تحقیق کے لیے تجارت کے حوالے سے ہیں۔ اس پابندی کو سخت بنایا جائے۔جانوروں میں پائی جانے والی بیماریاں ڈھائی ارب انسانوں کو بیمار کرنے کی ذمہ دار ہیں اور ان کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں 27 لاکھ لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔گذشتہ ماہ ماہرین ماحول نے دی انڈپینڈنٹ کے ذریعے خبردار کیا تھا کہ اگر ہم متعدی امراض اور قدرتی دنیا کے درمیان تعلق کو نظرانداز کرتے رہے تو کرونا وائرس انسانوں کو تباہی سے دوچار کرنے والی آخری وبا نہیں ہو گی۔جنگلی حیات کی مارکیٹوں سے نمٹنا اور جنگلی جانوروں کی تجارت ایک خطرناک اور پیچیدہ معاملہ ہے جس کے لیے عالمی سطح پر رابطے کی ضرورت ہے لیکن اگر اسے نظراندازکر دیا گیا تو اس سے ہم سب کو خطرہ ہو گا۔انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق چند روز پہلے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کی بند دکانوں میں اُن پالتو جانوروں کو بمشکل بچایا گیا، جنہیں لاک ڈاؤن کے باعث مالکان نے دکانوں میں ہی بند چھوڑ دیا تھا۔لاک ڈاؤن کے دوران جانوروں کو نظرانداز کیے جانے پر ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں گہری تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔عائشہ چندریگر فاؤنڈیشن کی بانی عائشہ چندریگر کے مطابق: ‘یہ دکانیں کوزے کی طرح چھوٹی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پنجروں میں تین تین بلیاں ٹھنسی ہوئی تھیں۔ نہ سانس لینے کو ہوا، شٹر گرے ہوئے، نہ پنکھا، نہ روشنی، نہ کھانا، نہ پانی، دو ہفتے جانور اسی طرح رہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو 70 فیصد جانور زمین پر مرے پڑے تھے۔ باقی 30 فیصد جن کو ہم بچا کر لائے ہیں ان کی بھی حالت نازک ہے۔سرکاری احکامات کے مطابق اب ایمپریس مارکیٹ میں دکانداروں کو دو گھنٹے کے لیے دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں