لندن (پی این آئی) برطانیہ کے فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس (ایف سی او) نے بھارت، فلپائن، بولیویا اور ایکواڈور سے برطانوی شہریوں کو چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے واپس برطانیہ لانے کا اعلان کیا ہے لیکن فی الوقت پاکستان میں پھنسے برطانویوں کو یہ سہولت آفر نہیں کی گئی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 100000 برٹش نیشنل پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی دہری شہریت ہے اور ایک اندازے کے مطابق
21000 یوکے سے عارضی وزٹ کرنے والے ہیں، بعد والوں میں سے تقریباً 8000 شارٹ ٹرم ٹریولرز نے حال ہی میں برطانوی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا تھا کہ وہ فوری طور پر گھر واپس جانا چاہتے ہیں۔ برطانوی ہائی کمیشن کی درخواست پر ان افراد کو گھر واپس لانے کیلئے پی آئی اے کی کچھ سپیشل فلائٹس کا انتظام کیا گیا، کیونکہ ان کے بڑھتے ہوئے کرائے تمام افراد برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ گزشتہ ہفتے ایک کمرشل اور تین سپیشل فلائٹس آپریٹ کی گئی تھیں، جن سے تقریباً 1000 مسافروں کو مانچسٹر اور لندن پہنچایا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس ہفتے مزید 8 پروازوں کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی آئی اے مینجمنٹ اور پائلٹس ایسوسی ایشن کے درمیان تعطل کی وجہ سے، جو کہ اس سہ پہر کو ختم ہوا، پی آئی اے نے کراچی سے ہیتھرو کیلئے ایک پرواز آپریٹ کرنے کیلئے پائلٹس کا انتظام کیا ہے۔ دریں اثنا پاکستان میں پھنسے برطانویوں کو برطانوی حکومت نظرانداز کر رہی ہے، مجموعی طور پر تقریباً 4000 ٹریولرز برطانوی حکومت اور پی آئی اے کی انتظام کردہ سپیشل پروازوں کے ذریعے واپس بھیجا گیا ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق 20000 برطانوی شہری پاکستان میں غیر یقینی صورت حال میں رہنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں پھنسے ہوئے کچھ برطانیوں کو فیملی سپورٹ سسٹم حاصل ہے جبکہ غالب اکثریت کو پاکستان میں 21 مارچ سے ائر سپیس کی بندش کی وجہ سے فلائٹس کی منسوخی کے نتیجے میں شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان مسافروں کو ری فنڈ کرنے کے بجائے انہیں پی آئی اے کی جانب سے غیر واضح فلائٹ کریڈٹس آفر کئے جا رہے ہیں۔ برٹش پاکستانیز نے شکایت کی ہے کہ پی آئی اے کے سٹاف نے ان کے ساتھ جو رویہ حتیٰ کہ غیر معمولی پرائسز کا مطالبہ کیا، اس کو ڈیل کرنے میں کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ انہوں نے شکایت کی کہ حکومت اور ہائی کمیشن حکام نے شاندار کام کرنے پر ایک دوسرے کو ٹوئٹر پر مبارکباد دی، پھنسے ہوئے شہریوں کو درحقیقت معمولی ریلیف دیا جا رہا ہے۔ ایف سی او ان سوالات کا جواب نہیں دے رہا کہ منسوخ پروازوں اور منسوخ ٹکٹس والے برطانویوں کی مدد کیلئے برطانوی حکام کیا کر رہے ہیں۔ قبل ازیں ایف سی او نے دنیا بھر میں پھنسے شہریوں کو وطن واپس لانے کیلئے 70 ملین پونڈ کی رقم مختص کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بظاہر پاکستان میں پھنسے ہوئے برٹش شہریوں کو برطانوی حکومت کی جانب سے کوئی مالی سپورٹ نہیں مل رہی ہے۔ پاکستان میں پھنسے برطانوی شہریوں کا کہنا ہے کہ برٹش ہائی کمیشن نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے کمپنسیشن حاصل کریں لیکن لوگوں کی اکثریت کمپنسیشن حاصل کرنے کیلئے معاملے میں قانونی پیچیدگیوں میں الجھنے کی متحمل نہیں۔ ایک برطانوی نے کہا کہ ہائی کمیشن ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ ان کیلئے پالیسی کے طور پر جو کرسکتا ہے کررہا ہے۔ ہمیں سٹیٹ ایجنٹس اور پی آئی اے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تمام وعدے صرف سوشل میڈیا پر میڈیا کا پیٹ بھرنے کیلئے کئے جا رہے ہیں، یہ برطانوی تماتر کوششوں کے باوجود اپنی کنفرم سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ سیکرٹری آف سٹیٹ فار فارن افیئرز ڈومینک راب کے دستخط شدہ حالیہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اگلے ہفتے سے حکومت دہلی، گوا اور ممبئی سے پروازوں کے ذریعے بھارت میں پھنسے برطانوی شہریوں کو واپس لانا شروع کرے گی۔ بھارت میں ان پروازوں میں دل چسپی رکھنے والے مسافروں سے کہا گیا ہے کہ بھارت سے ٹریول ایڈوائس کو gov.uk پر چیک کریں، جس کو اس وقت اپ ڈیٹ کیا جائے گا، جب ان پروازوں کیلئے بکنگ شروع ہوگی۔ برطانوی حکومت کے حکام کا کہنا ہے کہ جن روٹس پر کمرشل فلائٹس دستیاب نہیں ہیں، ان پر چارٹرڈ فلائٹس کا انتظام کیا گیا ہے لیکن دہلی، گوا اور ممبئی جیسے مقامات کمرشل پروازوں کیلئے خاصے مستحکم روٹس ہیں۔ پاکستان میں پھنسے ہوئے ایک برطانوی کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر گوا کیلئے ٹکٹ کی لاگت ایک چارٹرڈ فلائٹ پر 680 پونڈ ہے جبکہ پی آئی اے نے اعلان کیا ہے کہ وہ فی مسافر 685 سے 750 پونڈ کے درمیان لاگت وصول کرے گی، تاہم پی آئی اے کے زیادہ تر مسافروں کا کہنا ہے کہ ان سے فیئر بریکٹ کے آخر تک بلند چارج کئے گئے ہیں جو کہ 750 پونڈ کے قریب ہیں۔ اگر پی آئی اے ہم سے زیادہ چارج کرتی ہے تو پھر ہماری حکومت پاکستان کیلئے چارٹرڈ فلائٹس کا انتظام کیوں نہیں کرتی۔ معاملہ انتہائی سنگین ہے، جس پر سابق شیڈو فارن سیکرٹری اور موجودہ شیڈو انٹرنیشنل ٹریڈ سیکرٹری ایمیلی تھورنبری ایم پی نے فارن سیکرٹری ڈومینک راب کو لکھا ہے اور ان سے پوچھا کہ پاکستان سے برطانوی شہریوں کو واپس لانے کیلئے چارٹرڈ فلائٹس کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا۔ تھورنبری کے اس خط پر سابق لیبر لیڈر جیرمی کوربن نئی ڈپٹی لیڈر انجیلا رینئر اور دیگر 73 لیبر ایم پیز کے دستخط ہیں۔ اس میں کہا گیا کہ برٹش پاکستانی وطن واپسی کیلئے بے چین ہیں۔ ان میں سے بہت سے معمر، ناتواں اور صحت کی نازک صورت حال سے دوچار ہیں۔ اس میں اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں ہائی کمیشن ویسی مثالوں کو نہیں اپنا رہا جو دنیا بھر میں دوسری ایمبیسز اختیار کر رہی ہیں، اس سلسلے میں جرمنی اور فرانس کی فوری کوششوں کا حوالہ دیا گیا۔ جنہوں نے مارچ کے وسط میں جب سفری پابندی کا اطلاق شروع ہوا تھا تو اپنے شہریوں کو نکال لیا تھا۔ برٹش ہائی کمیشن نے یہ مشتہر کیا ہے کہ اس نے اپنی ویب سائٹ پر ایک فنانشل سپورٹ سسٹم بنایا ہے، جس میں 24 گھنٹے فون ڈیسک بھی شامل ہے، جو وطن برطانوی واپسی کیلئے فلائٹس ایفورڈ نہیں کر سکتے، ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ہائی کمیشن سے رابطہ کریں۔ حکام کا کہنا ہے کہ لون کیلئے اپلائی کرنے کا پراسس کوئی طویل نہیں ہے اور زیادہ تر کو جلد جواب مل گیا لیکن لونز صرف استثنائی بنیاد پر دیئے جا رہے ہیں۔ جن لوگوں نے ہائی کمیشن سے رابطہ کیا ان کو پراسس کو مکمل کرنے میں پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے شکایت کی کہ اس میں وقت لگتا ہے۔ تاہم اعلیٰ ذرائع کا جیو سے کہنا ہے کہ برطانوی حکومت نے لون کرائی ٹیریا اور نئے ٹکٹ کی خریداری میں مالی مشکلات کا سامنا کرنے والوں کیلئے قرضے کی حد کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے نئی ہدایات جاری کی ہیں۔ فارن آفس کے ذرائع کے مطابق اگر تمام برطانوی وطن واپس آنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے 100 پروازیں چلانا پڑیں گی، جس کی لاگت تقریباً 30 ملین پونڈ ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان افراد کو معمولی یا کوئی کمپنسیشن نہیں ملے گا، جن کو واپسی کی شدید ضرورت ہے۔قبل ازیں فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس آف یونائیٹڈ کنگڈم نے دنیا بھر میں پھنسے ہوئے شہریوں کو واپس لانے کیلئے 70 ملین پونڈ کی رقم کا اعلان کیا تھا۔ بہت سے برٹش پاکستانی برطانیہ واپس جانا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کی دوائوں تک رسائی نہیں ہے لیکن برطانوی حکومت نے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو یہ واضح کیا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی جائے گی کیونکہ کورونا وائرس کی مریضوں کی وجہ سے این ایچ ایس بھرا ہوا ہے اور اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اس وقت وہ برطانیہ میں ہر ایک کی دیکھ بھال کر سکے حتی کہ شدید دبائو کی وجہ سے ریگولر اپائنٹمنس بھی منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان نیوز انٹرنیشنل (پی این آئی) قابل اعتبار خبروں کا بین الاقوامی ادارہ ہے جو 23 مارچ 2018 کو قائم کیا گیا، تھوڑے عرصے میں پی این آئی نے دنیا بھر میں اردو پڑہنے، لکھنے اور بولنے والے قارئین میں اپنی جگہ بنا لی، پی این آئی کا انتظام اردو صحافت کے سینئر صحافیوں کے ہاتھ میں ہے، ان کے ساتھ ایک پروفیشنل اور محنتی ٹیم ہے جو 24 گھنٹے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے متحرک رہتی ہے، پی این آئی کا موٹو درست، بروقت اور جامع خبر ہے، پی این آئی کے قارئین کے لیے خبریں، تصاویر اور ویڈیوز انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کی جاتی ہیں، خبروں کے متن میں ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتا جاتا ہے جو نا مناسب ہوں اور جو آپ کی طبیعت پر گراں گذریں، پی این آئی کا مقصد آپ تک ہر واقعہ کی خبر پہنچانا، اس کے پیش منظر اور پس منظر سے بر وقت آگاہ کرنا اور پھر اس کے فالو اپ پر نظر رکھنا ہے تا کہ آپ کو حالات حاضرہ سے صرف آگاہی نہیں بلکہ مکمل آگاہی حاصل ہو، آپ بھی پی این آئی کا دست و بازو بنیں، اس کا پیج لائیک کریں، اس کی خبریں، تصویریں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں شیئر کریں، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، ایڈیٹر
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں