کورونا وائرس کی تباہ کاریاں رک گئیں، لاک ڈائون ختم کر نے پر غور شروع

روم(پی این آئی) کورونا وائرس کے خلاف چین کی حیران کن فتح کا راز انتہائی سخت لاک ڈاؤن تھا، دیگر کئی ممالک میں بھی لاک ڈاؤن ہی اس موذی وباءکا واحد کارگر علاج ثابت ہوا اور اب اٹلی، سپین اور فرانس میں بھی کڑے لاک ڈاؤن اور کرفیو کے ثمرات سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں، جس میں پاکستانی حکومت اور

عوام کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ میل آن لائن کے مطابق اٹلی میں سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے کورونا کی وباءکے پھیلاؤ میں انتہائی کمی آ چکی ہے اور نئے مریضوں اور اموات کی تعداد عروج کے بعد کم ترین سطح پر آ گئی ہے، جس کے بعد اطالوی حکام لاک ڈاؤن نرم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ 9مارچ کو اٹلی میں 427اموات ہوئیں تھیں اور اس کے بعد روزانہ کی بنیاد پر یہ تعداد بڑھتی چلی گئی۔ گزشتہ تین دن سے اموات کی تعداد 9مارچ کی سطح سے نیچے چلی گئی ہے۔ نئے سامنے آنے والے مریضوں کی تعداد میں واضح کم ہو گئی ہے۔ ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت وارڈز میں موجود مریضوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔اطالوی وزیرصحت نے اعلان کیا ہے کہ ہم دوسرے مرحلے میں داخل ہونے جا رہے ہیں جس میں لاک ڈاؤن کو کچھ نرم کیا جائے گا کیونکہ ملک میں وباءکا طوفان کافی حد تک قابو میں آ چکا ہے۔انہوں نے لاک ڈاؤن نرم کرنے کی منصوبہ بندی کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ ”ایک طرف لاک ڈاؤن میں نرمی کی جائے گی اور دوسری طرف ٹیسٹنگ کا دائرہ پھیلایا جائے گا اور ہیلتھ سروسز میں اضافہ کیا جائے گا۔لاک ڈاؤن میں نرمی آنے کے بعد بھی سماجی میل جول میں فاصلہ رکھنے کی پابندی لاگو رہے گی اور فیس ماسک جیسی انفرادی تحفظ کی ڈیوائسز کا استعمال یقینی بنایا جائے گا۔“ وزیر صحت کا کہنا تھا کہ ”جب تک کورونا وائرس کی کوئی ویکسین نہیں آ جاتی، اس وقت تک اس وباءکے دوسری بار حملے کا امکان یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔“رپورٹ کے مطابق دوسری طرف دعوے سامنے آ رہے ہیں کہ سپین اور فرانس میں حکومتوں کی طرف سے نافذ کیے گئے کرفیو کے بھی فوائد بھی سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں اور گزشتہ تین دنوں میں ان دونوں ممالک میں بھی نئے مریضوں اور اموات کی تعداد میں مسلسل تیسرے روز بھی کمی واقع ہوئی ہے۔اس وقت اٹلی میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 1لاکھ 28ہزار 948ہے۔ ان میں سے 3ہزار 977مختلف ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت وارڈز میں ہیں، جبکہ اب تک اٹلی میں 15ہزار 887اموات ہو چکی ہیں، جو فی الوقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے بعد ان ممالک کی صورتحال سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ وائرس کے زیادہ پھیلاؤ سے پہلے سخت لاک ڈاؤن کر دیا جاتا تو اتنے بڑے جانی نقصان سے بچاؤ ممکن ہو سکتا تھا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں