نیویارک(پی این آئی) بھارتی ادارے سینٹر فار ڈیزیز ڈائنیمکس، اکانومکس اور پالیسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رامانن لکشمینارائن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کو کورونا وائرس کیسز کے ”سونامی“ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے انہوں نے کہا کہ اگر علم ریاضی کی بنیاد پر کورونا وائرس کے کیسز سے متعلق جو اندازے برطانیہ اور
امریکہ میں لگائے گئے ہیں اگر ان کا اطلاق بھارت پر بھی کیا جائے تو ملک میں بہت جلد 30 کروڑ کیسز سامنے آ سکتے ہیں جن میں سے چالیس سے پچاس لاکھ کیسز کی نوعیت شدید ہو سکتی ہے.بھارت نے پہلے ہی متعدد اقدامات کے ذریعے اس وائرس کے پھیلاو¿ کو کم کرنے کی کوششیں کی ہیں ملک میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 149 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تاہم صحت کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ بھارت نے کورونا کے بہت کم ٹیسٹ کیے ہیں یا کیس رپورٹ ہی نہیں کیئے گئے.بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے شہریوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کے بعد ملک میں عوامی ٹرانسپورٹ کی سہولیات محدود کی جا رہی ہیںپبلک ٹرانسپورٹ جیسے کہ ٹرینیں اور بسیں ملک کی بیشتر آبادی کا ذریعہ نقل و حمل ہے.بھارتی ریاست پنجاب میں تمام پبلک ٹرانسپورٹ فوری طور پر معطل کر دی گئی ہے دارالحکومت دہلی میں بھی میٹرو اب پرہجوم سٹیشنوں پر نہیں رکے گی جبکہ اس کی آمدوروفت کے اوقات میں بھی تبدیلی کی گئی ہے جبکہ مسافروں کی سکیننگ بھی کی جا رہی ہے. ممبئی میں بھی اس بات پر غور ہو رہا ہے کہ پبلک ٹرینوں کو آنے والے دنوں میں معطل کر دیا جائے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اودے ٹھاکرے کہہ چکے ہیں کہ وہ ٹرینوں کو خالی دیکھنا چاہتے ہیں ملک کے بڑے شہروں میں بسوں میں مسافروں کے کھڑے ہونے پر پہلے ہی پابندی عائد کی جا چکی ہے جبکہ ان کی تعداد میں بھی کمی کر دی گئی ہے.سری لنکا نے عام انتخابات ملتوی کرتے ہوئے آج سے مقامی وقت کے مطابق شام 6بجے سے سوموار صبح6 بجے تک ملک گیر کرفیو لگانے کا اعلان کیا ہے صدر گوٹابایا راجہ پکسے نے اس سے قبل کہا تھا کہ الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا انھیں امید تھی کہ وہ اس مرتبہ پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل کریں گے جس کے بعد وہ آئین میں تبدیلی کر پائیں گے.تاہم گذشتہ چند دنوں میں ملک میں کورونا وائرس کے کیسز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور گذشتہ تین دنوں میں متاثرہ افراد میں دگنا اضافہ ہوا ہے سرکاری میڈیکل افسران کی تاجر یونین نے خبردار کیا ہے کہ سری لنکا میں کیسز میں اضافے کی شرح اٹلی سے بھی زیادہ ہے.امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد
10000 سے تجاوز کر گئی ہے جانز ہاپکنز کے مطابق دنیا بھرمیں اس وقت مصدقہ مریضوں کی تعداد اڑھائی لاکھ کے قریب ہے اور تیزی سے بڑھ رہی ہے.فلپائن میں محکمہ ٹرانسپورٹ نے کہا ہے کہ غیر ملکی افراد کے ملک میں داخلے پر پابندی کا نفاذ اتوار رات 12 بجے سے کیا جائے گا فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں تمام پراوزیں پہلے ہی معطل کر دی گئی ہیں جبکہ سکولز بھی بند ہیں اور پولیس اور آرمی افسران کو قرنطینہ مراکز کے باہر سکیورٹی پر تعینات کیا گیا ہے.منیلا میں برطانوی سفارت خانے کے مطابق 200 کے قریب برطانوی شہری اس وقت ملک میں موجود ہیں جو ان سفری پابندیوں سے متاثر ہوئے ہیں تاہم فلپائن حکومت کا کہنا ہے کہ تمام غیرملکی افراد کو کسی بھی وقت ملک سے جانے کی اجازت ہو گی ملک میں اب تک کورونا وائرس کے 217 کیسز سامنے آ چکے ہیں تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ حقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے.ادھر دوا سازی کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی تیاری میں 12 سے 18 ماہ لگ سکتے ہیں دواساز کمپنیوں کی عالمی تنظیم کے نمائندوں نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقد ہونے والی ایک ویڈیو کانفرنس میں دنیا کی بڑی دوا ساز کمپنیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس مقصد کے لیے وہ ادویات کی تیاری کے لیے طے شدہ قوائد و ضوابط میں تو نرمی لا سکتے ہیں تاہم ویکسین کی تلاش میں ٹیسنگ کے عمل میں جلد بازی نہیں کی جا سکتی ان کے مطابق چونکہ یہ ویکسین صحت مند لوگوں کو دی جا رہی ہوگی اس لیے وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی کسی کوتاہی کی وجہ سے کوئی بھی شخص بیمار ہو جائے ماہرین کے مطابق اگر ایسا ہوگا تو دنیا بھر میں لوگ ویکسین کی افادیت پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے.تاہم ماہرین پہلے سے موجود ادویات پر بھی تجربات کررہے ہیں کہ شاید کچھ دوائیوں کو ملا کر وباءکی روک تھام یا کم کرنے کے لیے کوئی دوائی بنائی جاسکے ا س سلسلہ میں فرانس
اور امریکا میں ملیریا کی بعض ادویات کو تجرباتی طور پر مریضوں کو دینے کی اجازت بھی دیدی گئی ہے. جنوبی امریکا کے ممالک میں کورونا کی وباتیزی سے پنجے گاڑرہی ہے اور پورے براعظم امریکا میں کوئی بھی ملک اس وباءمرض سے محفوظ نہیں رہا البتہ بحرالکاہل کے بعض جزائردنیا سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے اب تک محفوظ ہیں .پورے براعظم امریکا میں ریاست ہائے متحدہ امریکا (یوایس اے)کی تمام پچاس ریاستوں میں وائرس سے متاثرہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں‘کینیڈا کے بھی کئی صوبوں میں کیس رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ میکسیکو سے لے کر چلی کر جنوبی امریکا کا کوئی بھی ملک اس وبائی مرض سے محفوظ نہیں . تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ارجنٹا ئن جنوبی امریکہ میں لاک ڈاؤن ہونے والا پہلا ملک بن چکا ہے تمام شہریوں پر رواں ماہ کے آخر تک کھانے پینے کی اشیا اور دوائیاں خریدنے کے علاوہ گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد کی گئی ہے.لاطینی امریکہ میں اب تک کورونا کے کیسز کی تعداد یورپ میں متاثرہ افراد کے اعداد و شمار تک تو نہیں پہنچی تاہم بتایا کہ سامنے آنے والے فیصلوں سے لگتا ہے کہ جنوبی امریکی ملکوں کی حکومتیں اس حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی.ادھر امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر گیوین نیوسوم نے کہا ہے کہ وہ لوگوں سے گھر پر رہنے کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے سماجی دباؤ پر منحصر ہیںچنانچہ توقع یہ کی جا رہی ہے کہ چند یورپی ممالک کے برعکس جہاں لوگوں پر گھروں سے باہر نکلنے پر جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں، وہاں کیلیفورنیا میں اس حوالے سے
قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں نہیں آئیں گے.پریس کانفرنس کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ ریاست میں جو غیر رجسٹرڈ تارکین وطن ہیں، کیا وہ ڈاکٹرز کے پاس جا پائیں گے تو اس پر گورنر کا کہنا تھا کہ کیلیفورنیا میں بلا امتیاز طبی سہولیات سب کے لیے موجود ہیں ‘پبلک پالیسی انسٹیٹیوٹ آف کیلیفورنیا کے مطابق ریاست میں 23 لاکھ سے 26 لاکھ کے درمیان غیر رجسٹرڈ تارکینِ وطن موجود ہیں.گورنر نیوسوم نے کہا کہ انھیں علم ہے کہ کیلیفورنیا میں ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف نسل پرستانہ رویہ رکھا جا رہا ہے یہاں تک کہ لوگوں کی جائے پیدائش اور ان کے چہرے کے خدوخال کی وجہ سے ان پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے.انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ یہ مرحلہ انسانیت کی مشترکہ بنیادوں پر غور کرنے کا ہے انہوں نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے کیلیفورنیا کے لیے ایک ارب ڈالر امداد کی بھی اپیل کی ہے‘نیویارک کے میئرنے ریاست کے گورنر سے اپیل کی ہے کہ وہ نیویارک شہر میں نیشنل گارڈتعینات کرنے کا حکم دیں امریکی آئین کے مطابق یونین میں شامل ہر ریاست جس طرح اپنا جھنڈا اور مقامی قوانین رکھ سکتی ہے اسی طرح ہر ریاست فوجی ونیم فوجی دستے بھی رکھ سکتی ہے جنہیں نیشنل گارڈزکہا جاتا ہے .کورونا وائرس نے دنیا کی 7بڑی اقتصادی طاقتوں کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ جون میں امریکا کے کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والا سربراہی اجلاس ملتوی کردیں جی 7 دنیا کے سات ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم ہے جس میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں مگر اس وقت یہ تمام ممالک کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بحرانی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور معیشتوں پر وائرس کے متوقع
اثرات سے نمٹنے کی تیاری کر رہے .بتایا جارہا ہے کہ جی7کانفرنس کیمپ ڈیوڈ میں نہیں ہورہی وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوڈ ڈیر کا کہنا ہے کہ تمام میٹنگز ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہوں گی تاکہ تمام ممالک اپنے تمام تر وسائل کو کووِڈ 19 سے جنم لینے والے طبی اور معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے استعمال کر سکیں. ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے عالمی راہنماؤں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کے بارے میں سخت انتباہ جاری کیا ہے انٹونیو گوٹریس نے کہا ہے کہ اگر ہم وائرس کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے دیں خاص طور پر دنیا کے انتہائی کمزور خطوں میں تو یہ لاکھوں افراد کو ہلاک کردے گا.انہوں نے کہا کہ عالمی یکجہتی نہ صرف اخلاقی ضروری ہے، بلکہ یہ ہر ایک کے مفاد میں ہے صحت کے شعبے میں آنے والی اس تباہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم صحت کے کمزور ترین نظام کی طرح ہی مضبوط ہیں. اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ معاشی طور پر کمزور طبقے، کم اجرت والے مزدوروں ، اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کی مدد کریں.
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں