دُبئی(پی این آئی) متحدہ عرب امارات میں کسی بھی شخص میں کورونا کی مشتبہ علامات ظاہر ہونے پر اسے قرنطینہ منتقل کیا جا رہا ہے۔ تاہم اکثر ملازمت پیشہ افراد پریشان ہیں کہ انہیں قرنطینہ جانے کی صورت میں ان کی تنخواہ نہ کاٹ لی جائے۔ اس حوالے سے ایک قانونی مشیر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ایسے ملازمین
جن کے مالکان انہیں خود قرنطینہ میں منتقل ہونے کی ہدایت کرتے ہیں۔وہ مالکان ان کی قرنطینہ کے دنوں کی تنخواہ نہیں کاٹ سکیں گے، اور ملازمت سے غیر حاضری کے ان ایام کی تنخواہ دینے کے پابند ہوں گے۔ اکثر کمپنیاں اپنے ان ملازمین کو قرنطینہ جانے کا مشورہ دے رہی ہیں جو تعطیلات کے بعد اپنے وطن سے واپس امارات لوٹ رہے ہیں۔ اس حوالے سے قانونی امور کے ایک مشیر اشیش مہتا نے خلیج ٹائمز کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو ملازمین دیگر ممالک سے تعطیلات منانے یا دفتری دورے کے بعد واپس امارات آ رہے ہیں، اگر ان کی کمپنیوں کے مالکان انہیں قرنطینہ میں منتقل ہونے کا کہہ رہے ہیں تو ایسی صورت میں ان ملازمین کو قرنطینہ میں گزارے گئے دنوں کی تنخواہ بھی ادا کرنا ہو گی۔کیونکہ مالک کی جانب سے قرنطینہ منتقلی کی صورت میں دی گئی تعطیلات بیماری کی چھٹیاں شمار ہوں گی ۔ اس بارے میں 1980ء کا اماراتی وفاقی قانون نمبر 8 کہتا ہے کہ بیماری کی تعطیلات کے بدلے میں تنخواہ نہیں کاٹی جا سکتی اور مالک کو تنخواہ ادا کرنا لازمی ہو گا۔ اگر کوئی باس یا مالک اپنے ملازم کو قرنطینہ کی تعطیلات دینے کے بعد اس کی تنخواہ کاٹ لیتا ہے تو ایسی صورت میں وہ اماراتی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔اشیش مہتا نے وضاحت کی کہ اگر کوئی ملازم خود کو رضاکارانہ طور پر قرنطینہ میں منتقل کر لیتا ہے تو ایسی صورت میں اس کا باس تنخواہ کی ادائیگی کا پابند نہیں ہو گا۔ البتہ اگرقرنطینہ میں منتقل ہونے کے بعد اس ملازم کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا تو پھر اس کی قرنطینہ میں رہنے کے تمام دنوں کو بیماری کی رخصت تصور کی جائے گا اور اسے تنخواہ کی ادائیگی کرنا ہو گی۔ایک معروف کمپنی کے ایچ آر ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ جن ممالک کو ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کورونا سے شدید متاثرہ ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے، وہاں سے امارات واپس آنے والے ملازمین کو کمپنیوں کی جانب سے ملازمت پر آنے سے قبل 14 روز کے لیے قرنطینہ بھیجا جا رہا ہے، تاکہ اگر وہ کورونا سے متاثرہ ہوں تو ان کے ساتھی ملازمین اس مہلک وائرس کا نشانہ بننے سے محفوظ رہ جائیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں