کوئٹہ (آئی این پی )بلوچستان میں 24 جولائی سے شروع ہونیوالے مون سون کے تیسرے سپیل نے صوبے میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ۔ ہفتے کو مزید سات افراد جبکہ ایک ہفتے کے دوران 27 افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد 127 تک پہنچ گئی ۔ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کوئٹہ اجمل شاد کے مطابق بلوچستان میں مون سون کی بارشوں نے 30 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
صوبے میں معمول سے چار سے پانچ گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ ماہ سے جاری بارشوں نے ژوب سے لے کر گوادر تک صوبے کے تمام 34 اضلاع کو متاثر کیا ہے۔ سرکاری و نجی عمارتوں، ڈیموں، سڑکوں، پلوں، ریلوے ٹریکس، زراعت اور گلہ بانی سمیت ہر شعبے کو نقصان پہنچا ہے۔رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں اب تک 13 ہزار 320 مکانات جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں جبکہ 23 ہزار مال مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ پانچ سو کلومیٹر سے زائد سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے۔پی ڈی ایم اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فیصل طارق نے میڈیا کو بتایا کہ 24 جولائی سے شروع ہونے والے مون سون کے سپیل نے لسبیلہ اور جھل مگسی کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، جہاں سیلابی ریلے آبادیوں میں داخل ہونے کی وجہ سے رابطہ سڑکیں بہہ گئیں اور متاثرہ علاقوں تک ابھی بھی زمینی رسائی نہیں۔
اس لیے کشتیوں اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے پھنسے ہوئے افراد کو ریسکیو کیا جا رہا ہے۔ڈپٹی کمشنر لسبیلہ افتخار بگٹی کے مطابق اب تک مختلف دیہاتوں میں پھنسے ہوئے پانچ ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کیا جا چکا ہے۔انہوں نے بتایا کہ سیلابی ریلوں میں بہنے اور مختلف حادثات میں ایک ہفتے کے دوران 11 افراد کی موت ہو چکی ہے جبکہ مجموعی طور پر 16 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔لسبیلہ میں گزشتہ ہفتہ طوفانی بارش کے بعد سیلابی ریلوں نے آبادیوں کا رخ کیا تھا۔ حب ڈیم بھرنے کے بعد دو لاکھ کیوسک سے زائد پانی کا اخراج ہوا جس سے بڑی آبادی زیرآب آئی۔دوسری جانب خضدار اور باقی بالائی علاقوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے بھی لسبیلہ کے بیلہ شہر اور گردو نواح کو متاثر کیا۔
بیلہ میں پانچ بند ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے پوری بیلہ تحصیل زیرآب آ گئی۔این 25 کوئٹہ کراچی آر سی ڈی شاہراہ نو مقامات پر پل اور سڑکیں بہنے سے چھ دنوں تک ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند رہی، جسے سنیچر کو آٹھ مقامات پر بحال کر دیا گیا۔ تاہم اوتھل کا علاقے لنڈا ندی کے مقام پر پل بہنے کی وجہ سے اب تک ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے۔ سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ بلوچستان سے کراچی جانے والی پھل اور سبزیوں کی ترسیل بھی معطل ہے جس کی وجہ سے زمینداروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔لسبیلہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو روحانہ گل کاکڑ نے بتایا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر پھنسے ہوئے مسافروں اور ڈرائیوروں کو ایک غیر سرکاری ادارے کی مدد سے کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔لسبیلہ کی تین تحصیلوں لاکھڑا، بیلہ اور اوتھل کو سیلاب نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ تحصیل لاکھڑا، دریجی اور کنراج کا چھ دنوں سے باقی پورے ضلع سے زمینی رابطہ منقطع ہے۔
سینکڑوں لوگ اب تک پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نکالنے کے لیے فضائی آپریشن جاری ہے۔ ہفتہ کو پاکستان فضائیہ نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاکھڑا میں پھنسے ہوئے 12 افراد کو ریسکیو کیا ہے۔ یہ افراد گزشتہ چھ دنوں سے پھنسے ہوئے تھے۔لسبیلہ کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق ضلع میں کپاس کی فصل کاٹنے کے لیے سندھ سے تقریبا 20 ہزار مزدور آئے تھے، جن کی اکثریت سیلاب میں پھنس گئی۔ ان مزدوروں کے ساتھ بچے اور خواتین بھی ہیں۔متاثرین کے لیے اوتھل کی جاموٹ کالونی میں ریلیف کیمپ لگایا گیا ہے، لیکن متاثرین نے شکایت کی ہے کہ انہیں کھانا اور ضروریات کی اشیا نہیں مل رہی۔ایک متاثرہ شخص رضا جاموٹ نے بتایا کہ ہمیں یہاں نہ کھانا مل رہا ہے اور نہ ہی پانی۔ لوگ بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں اس لیے کیمپ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق کوئٹہ کراچی کے علاوہ آواران گوادر، خضدار تا رتو ڈیرو اور گنداوا جھل مگسی شاہراہیں ٹریفک کے لیے بند ہیں۔ جبکہ لسبیلہ، جھل مگسی، نوشکی، کیچ، گوادر اور آواران میں بجلی اور مواصلاتی نظام متاثر ہوا ہے۔ جھل مگسی میں طوفانی بارش اور خضدار سے دریائے مولا کے ذریعے آنے والے سیلای ریلوں نے پورے ضلع کو ڈبو دیا ہے۔ جھل مگسی کا باقی صوبے سے چھ دنوں سے رابطہ منقطع ہے۔ گنداواہ جیکب آباد شاہراہ سمیت دیہاتوں کو ملانے والی رابطہ سڑکیں ہر قسم کی آمدروفت کے لیے بند ہیں۔مقامی صحافی عبدالحمید لاشاری کے مطابق پانی آہستہ آہستہ اترنا شروع ہوگیا ہے مگر سڑکیں بہہ جانے کی وجہ سے آمدروفت ممکن نہیں جس کی وجہ سے درجنوں دیہاتوں میں لوگ محصور ہیں اور خوراک کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت اور پاکستانی فوج ہیلی کاپٹر کے ذریعے متاثرہ علاقوں میں خوراک پہنچا رہی ہے۔
عبدالحمید لاشاری نے مزید کہا کہ ضلع میں گیسٹرو اور پیٹ کی بیماریاں پھیل گئی ہیں۔ جھل مگسی کے علاقے باریجہ اور گھاری کے رہائشی تین بچے گیسٹرو کے باعث ہلاک ہو گئے ہیں۔زمینی رابطہ منطقع ہونے کی وجہ سے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے سنیچر کو جھل مگسی کا فضائی دورہ کیا تھا۔ جھل مگسی سے متصل جعفرآباد، صحبت پور، نصیرآباد اور کچھی کے اضلاع بھی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی گزشتہ تین دنوں کے دوران طوفانی بارشوں سے جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔کوئٹہ کے نواحی علاقے میں قائم کچ اور سرہ غولہ ڈیم ٹوٹنے کی وجہ سے سرہ غڑگئی، نواں کلی، چشمہ اچوزئی اور کلی الماس زیر آب آ گئے۔برساتی نالے کے قریب واقع درجنوں گھر سیلابی پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ ہنہ اوڑک میں طوفانی بارش کی وجہ سے سڑکیں، مکانات اور سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ سیب کے باغ بھی تباہ ہوئے ہیں۔ہنہ کے رہائشی یاسین کاکڑ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی 50 سالہ زندگی میں ایسی طوفانی بارش نہیں دیکھی۔سیلاب نے ہماری زندگی بھر کی جمع پونجی اور باغات کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
ادھر کوئٹہ کے علاقے سریاب، مشرقی بائی پاس میں بھی متعدد کچے مکانات منہدم ہوئے ہیں۔شالکوٹ پولیس کے مطابق ہزار گنجی، مری کیمپ اور کلی رئیسانی میں ریلوں میں بہنے سے دو بچوں سمیت تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان ہی لک پاس کے قریب سیلابی ریلے نے کسٹمز کا ویئر ہاس تباہ کر دیا۔کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ میں گزشتہ دو دنوں کے دوران ہونے والی طوفانی بارش سے کانک، کھڈ کوچہ، کرد گاپ اور دشت کے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ڈپٹی کمشنر مستونگ سلطان احمد بگٹی نے اردو نیوز کو بتایا کہ کردگاپ میں پکنک کے لئے جانے والے لیویز اہلکار سمیت تین افراد سیلابی ریلے میں بہہ کر ہلاک ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ بارش سے فصلوں، زرعی ٹیوب ویلوں اور رابطہ سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ درجنوں کچے مکانات جزوی اور مکمل طور پر منہدم ہوئے ہیں۔ چاغی کے علاقے دشت گوران میں تین لڑکیاں پانی میں ڈوب کر ہلاک ہوئی ہیں۔اسسٹنٹ کمشنر دالبندین باسط بزدار کے مطابق تینوں کی عمریں 11 سے 15 سال کے درمیان تھیں۔ بچیاں ایک گڑھے میں جمع ہونے والے برساتی پانی میں کھیلتے ہوئے ڈوبنے سے ہلاک ہوئیں۔
گزشتہ تین دنوں کے دوران ہونے والی بارشوں سے نوشکی بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ نوشکی کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق خیصار نالے میں ڈوبنے والے شخص کی لاش نکال لی گئی ہے۔طوفانی بارش کے بعد قادر آباد، قاضی آباد، کلی جمالدینی، کلی مینگل، احمد وال اور یونین کونسل مل سمیت 20 سے زائد دیہاتی علاقے زیر آب آنے سے 500 سے زائد مکانات جزوی اور مکمل طور پر منہدم ہوئے ہیں اور سینکڑوں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ کوئٹہ نوشکی اور نوشکی چاغی کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر قلات کیپٹن ریٹائرڈ مہر اللہ بادینی کے مطابق قلات کے علاقے ہربوئی میں سیلای ریلے میں بہنے سے ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ضلع میں بارشوں سے منگچر، گزک، نیمرغ، جوہان اور دیگر علاقے متاثر ہوئے ہیں جہاں مکانات گرنے کے علاوہ رابطہ سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے۔ زراعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔
پاک افغان سرحدی شہر چمن میں گزشتہ رات ہونے والی طوفانی بارش سے شہر میں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ کئی دیہاتوں کا چمن سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ڈپٹی کمشنر چمن حمید زہری نے اردو نیوز کو بتایا کہ کلی سوئی کاریز میں گزشتہ روز تین سالہ بچہ ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد سیلابی ریلے کی وجہ سے دو دن تک بند رہی جسے ہفتے کو کھول کر آمدروفت دوبارہ بحال کر دی گئی ہے۔ افغان سرحد سے ملحقہ قلعہ عبداللہ کے علاقے توبہ اچکزئی میں طوفانی ہواں کے ساتھ تیز بارش کے بعد سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی ہے۔توبہ اچکزئی کے رہائشی عبداللہ اچکزئی کے مطابق سیلابی ریلوں کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ سیبوں سے لدے درخت بھی بہہ گئے۔
سیلاب نے سیب اور انگور کے باغات کو تباہ کر دیا ہے اور زمینداروں کے کروڑوں روپے ڈوب گئے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ کے علاقے مسلم باغ اور کان مہترزئی میں رواں ہفتے ہونیوالی بارشوں سے اب تک چھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ حافظ محمد قاسم کے مطابق تین دن کا ایک بچہ اب تک لاپتہ ہے جس کی تلاش جاری ہے۔انہوں نے بتایا کہ مسلم باغ اور کان مہترزئی میں سیلابی ریلوں نے مکانات اور زراعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جبکہ بجلی کے کئی کھمبے بھی گر گئے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں بجلی کی فراہمی متاثر ہے۔لیویز کنٹرول قلعہ سیف اللہ نے بتایا کہ افغان سرحد سے ملحقہ قلعہ سیف اللہ کے علاقے بادینی میں دو دن قبل ترخہ ڈیم ٹوٹ گیا تھا جس کے پانی کا رخ افغانستان کی طرف تھا اور وہاں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ژوب میں ایک دن کے وقفے کے بعد سنیچر کو دوبارہ موسلا دار بارش کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ڈپٹی کمشنر ژوب محمد رمضان پھلال نے اردو نیوز کو بتایا کہ ژوب کے علاقے سمبازہ میں گھوئی ڈیم میں ڈوب کر 21 سالہ نوجوان ہلاک ہوگیا جس کے بعد تین دنوں کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد تین اور مون سون بارشوں میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 11 تک پہنچ گئی ہے۔ضلع کوہلو میں گزشتہ شب ہونے والی بارش کے بعد ندی نالوں میں طغیانی پیدا ہو گئی۔
ڈیرہ بگٹی میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ سیلابی ریلوں میں بہنے سے سینکڑوں مویشی ہلاک ہو گئے ہیں۔لیویز کنٹرول ڈیرہ بگٹی کے مطابق پھیلاوغ میں کونال ڈیم بھرنے کے بعد نشیبی علاقے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے قریبی آبادیوں کو خالی کرایا جا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ دو دن قبل ڈیم کے قریب ایک ندی کو عبور کرتے ہوئے ماں اور بچہ ڈوب گئے تھے۔ ماں کو بچال یا گیا تاہم بچے کو زندہ نہ نکالا جا سکا۔ہرنائی میں بارش کے باعث کوئٹہ ہرنائی شاہراہ چھپر رفٹ کے مقام پر بند ہے۔ ریلوے کنٹرول کوئٹہ نے کہا ہے کہ نوشکی سے پاک ایران سرحدی شہر تفتان تک احمد وال، پدگ، دالبندین، یک مچ سمیت درجنوں مقامات پر ریلوے ٹریک کا نچلا حصہ سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے درمیان مال بردار ٹرین سروس معطل ہو گئی ہے۔ریلوے کنٹرول کے مطابق کوئٹہ سے ایران جانے والے چار مال گاڑیاں دالبندین اور ایران سے آنے والے ایک ٹرین یک مچ کے ریلوے اسٹیشن پر کھڑی ہیں ۔ ٹریک کی بحالی میں سات سے 10 دن تک لگ سکتے ہیں۔
ڈائریکٹر محکمہ موسمایت اجمل شاد کے مطابق کوئٹہ اور صوبے کے جنوبی علاقوں میں بارش برسانے والا نظام آئندہ 24 سے 36 گھنٹوں میں کمزور ہو جائے گا۔پشین، لورالائی، بارکھان، ژوب ، قلعہ سیف اللہ اور خضدار میں آئندہ تین سے چار دنوں تک بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔انہوں نے کہا کہ مون سون کا بارشوں کا یہ سلسلہ کچھ دنوں کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو سکتا ہے اور آئندہ دو ہفتوں تک الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔اجمل شاد نے مزید کہا کہ کوئٹہ، چاغی، نوشکی اور خاران سمیت بلوچستان کے ان حصوں میں اس بار مون سون کی بارشیں ہوئیں جہاں پہلے اس عرصے میں بارشیں نہیں ہوتی تھیں۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں