اسلام آباد(پی این آئی)محکمہ موسمیات کے مطابق جمعرات کے روز ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرد اور خشک رہے گا۔ جبکہ شمالی علاقہ جات اور شمالی بلوچستان میں موسم شدید سرد رہے گا۔ تا ہم پنجاب کے میدانی علاقوں اور بالائی سندھ میں صبح اور رات کے اوقات میں دھند اور پنجاب کے بعض میدانی علاقوں
میں کہر پڑنے کا بھی امکان ۔گذشتہ 24 گھنٹے کا موسم ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرداور خشک جبکہ شمالی بلو چستان ،شمالی علاقہ جات، کشمیر اور بالائی خیبر پختو نخوا میں شدید سرد آج ریکارڈ کیےگئےکم سےکم درجہ حرارت : قلات ،کالام منفی 11 ،کوئٹہ،زیارت،لہہ منفی 10 ، اسکردو منفی 08، استور، مالم جبہ منفی 07، گوپس،بگروٹ منفی 06، دیر، پاراچنار،دالبندین منفی 05 ، ژوب منفی 04 ،ہنزہ ،چترال،کاکول،مری اورراولاکوٹ میں منفی 03ڈگری سینٹی گریڈریکارڈ کیا گیا۔نومبر میں ریکارڈ توڑ سردی اور موجودہ شدید سردی کی لہر کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ کیوں ہر ماہ درجہ حرارت معمول سے اتنا کم گزرنے لگے ہیں؟ گرمی کا زور کیوں ٹوٹتا جا رہا ہے؟ موسم کی ویب سائٹ ویدر بسٹرز نے تفصیلات جاری کر دیں۔زمین پر موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے بڑا اور واحد ذریعہ سورج ہے۔ زمین تک پہنچنے والی سورج کی تپش میں ہر 11 سال بعد تبدیلی آتی ہے جو براہِ راست زمین پر موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا دنیاوی پیمانے پر زمین پر موسمیاتی تبدیلاں انسانی ردّ عمل سے نہیں بلکہ سورج کی زمین تک پہنچنے والی تپش میں مستقل کمی کی وجہ سے ہو رہی ہیں، جسکی تصدیق ناسا کے ماہرین نے 2017 سے کی ہوئی ہے۔ آنے والے سالوں میں Grand Solar Minimum (گرینڈ سولر منیمم) کی وجہ سے اوسطاً درجہ حرارت میں کمی متوقع۔۔عنقریب اور اس سے آگے مستقبل میں پاکستان میں فصلوں کی نش و نما کا دورانیہ کم ہو جانے کے باعث قحط سالی کا شدید اندیشہ ہوگا۔ یہ چیز 2016 سے خصوصاً دیکھنے میں آ رہی ہے کہ موسمِ بہار سے منسلک درجہ حرارت مئی تک دیکھے گئے۔ پورا 2019 اور 2020 کے پہلے نصف حصّے تک اوسطاً درجہ حرارت کئی علاقوں میں ریکارڈ توڑ حد تک کم رہے۔ نومبر 2020 میں شمالی پاکستان کے
علاقوں میں ریکارڈ توڑ سردی اور برفباری دیکھی گئی۔ ان وجوہات کی بنا پر فصلوں کی پیداوار بھی معمول سے کم رہی۔ جیسے جیسے گرینڈ سولر منیمم کی شدّت میں اضافہ ہوتا جاۓ گا، پنجاب، بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں فصلوں کی نش و نما کا دورانیہ سکڑ کر مئی سے اکتوبر کے وسط تک محدود ہو جاۓ گا (جو کہ معمول سے 1 ماہ کم ہے)! شدید کُہرا پڑنے کے باعث فصلیں بار، بار خراب ہونے کا خطرہ ہو گا۔بارش، برفباری، ژالہ باری اور سیلابی صورتحال میں اضافہ متوقع۔۔1850 کی دہائی سے پاکستان کی بارشوں کی اوسط میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ اسکے باعث بیسویں صدی میں کئی بار تباہ کن سیلابی صورتحال دیکھنے کو ملی اور اکّسویں صدی میں یہ ہمارے لئے مزید مسائل پیدا کر رہی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ انسانوں نے دریاؤں کے قدرتی راستوں میں یا تو آبادیاں قائم کر لی ہیں یا وہاں کاشتکاری کی جانے لگی ہے۔ لہٰذا جب بھی دریاؤں میں بہاؤ معمول سے تجاوز کرتا ہے تو لوگوں کو نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔بارش برسنے والے دنوں کی کُل تعداد اور بارش، برفباری اور ژالہ باری کے شدّت اور دورانئے، تینوں میں اضافہ ہوا ہے، اور یہ اب ہمارا نیا معمول بن جاۓ گا۔ اسکی وجہ ماحول میں بڑھتی کاربن ڈائی آکسائڈ نہیں
بلکے 2019 میں ناسا کے مطابق خلا میں ریکارڈ کئے گئے تاریخی ٹھنڈے ترین درجہ حرارت ہیں۔ جب بالائی ماحول معمول سے ٹھنڈا ہو تو آبی بخارات سے بھرے زیریں ماحول میں بادل اور گرج چمک کے طوفان بننے کے عمل میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے جبکہ مزید برق رفتار جیٹ سٹریمز زیادہ مقدار اور شدّت میں بارش، ژالہ باری اور برفباری کا سبب بنتی ہیں۔ژالہ باری کی شدّت اور دورانئے اور اولوں کے حجم میں اضافے کا خدشہ اب اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ 2015 تک جو ژالہ باری کے واقعات سابقہ فاٹا، خیبر پختونخواہ اور شمال مشرقی بلوچستان تک محدود تھے، وہ اب پنجاب اور سندھ میں فصل کی کاشت کے علاقوں تک پھیل چکے ہیں۔ یہ سلسلہ اس ہی طرح سے جاری رہنے کی توقع ہے اور مستقبل میں مزید بڑے پیمانے پر شدید ژالہ باری کے روپ میں اثر انداز ہو سکتا ہے۔ بالائی ماحول میں بڑھتی ہوئی ٹھنڈ کے سبب زمین پر اولے پڑنے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔موسمی سرگرمیوں کے روجھان میں تبدیلیوں کے باعث مجموعی طور پر ملک بھر میں برفباری میں اضافہ متوقع ہے۔ تاہم بڑھتی ٹھنڈ کے باعث برفباری اب اکتوبر میں شروع ہوا کریگی اور شمالی پاکستان میں مئی تک جاری رہ سکتی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں تقریباً 2
دہائیوں تک برفباری دسمبر کے آخر سے مارچ کے ماہ تک محدود تھی۔ معمول سے زیادہ شدّت اور دورانئے کی برفباری اور معمول سے انتہائی ٹھنڈے درجہ حرارت رہنے کے سبب ہمارے وہ گلیشیرز جو گزشتہ 25 سال سے سکڑ رہے تھے، اب واپس سے بڑھنا شروع ہو جائیں گے۔آندھی اور بارش کے رجحان میں بدلاؤ آ رہا ہے۔پاکستان میں بارش اور آندھی، طوفان کا محور جنوب مغرب کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔ جون 2019 میں چنیوٹ میں 130 سے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی آندھیاں ایک ہی ماہ میں 2 بار دیکھی گئیں۔ ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان، بھکّڑ، خوشاب، سرگودھا، فیصل آباد اور لاہور سمیت جنوبی اور وسطی پنجاب کے علاقوں میں 120 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد کی آندھیاں دیکھی گئیں۔ حتّیٰ کہ لاہور اور ڈی جی خان میں بالائی پنجاب کی تھنڈرسٹورم بیلٹ بشمول اٹک، راولپنڈی، جہلم اور سیالکوٹ سے زیادہ آندھیاں ریکارڈ کی گئیں! یہ روجھان 2013 سے رونما ہوا اور 2015 کے بعد سے اس میں متواتر روانی آ گئی ہے۔ شمالی سندھ کے بارش کے روجھان میں بھی بدلاؤ آ رہا ہے، جو کہ تقریباً ہر ماہ میں غیر معمولی حد تک تیز بارشوں اور
معمول سے کم درجہ حرارت کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔خلاصہ یہ کہ ہمیں فصلوں کی پیداوار میں کمی کے لئے تیّار رہنا ہوگا، تاہم اسکا ذمّہ دار گلوبل وارمنگ اور بڑھتی ہوئی کاربن ڈائےآکسائڈ نہیں بلکے “قدرتی طور پر رونما ہوتی موسمیاتی تبدیلیاں” ہیں۔ آج سے لے کر 2050 کی دہائی تک رونما ہونے والے غیر معمولی موسمی واقعات کا ذمّہ دار انسانی ردّ عمل کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ سورج زمین پر ہونے والے موسمیاتی بدلاؤ کا ذمّہ دار ہے۔ اسکو روکنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہمارے بس میں اتنا ہے کہ اس سے ہونے والے نقصانات سے بچنے کیلئے پہلے سے منصوبہ بندی کر کے رکھیں، اور اپنی زندگیوں کو بدلتے موسم کے حساب سے ڈھالنا سیکھیں۔یاد رکھیں، جب روز کا موسم ہمارے قابو میں نہیں، تو زمین پر رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں بھی کسی صورت ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ یہ ہم سے بہت اوپر کی چیز ہے! دنیا کی تاریخ میں موسمیاتی تبدیلیاں سورج کی تپش میں کمی یا اضافے کے بنیاد پر ہی آئی ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں