کابل (این این آئی)افغانستان میں امریکا اور نیٹو فورسز کی مدد کرنے والے ہزاروں مترجمین کو نکالنے کا کام جولائی کے اواخر میں شروع ہوجائے گا۔ اس دوران عسکری لحاظ سے اہم علاقوں پر طالبان کا قبضہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔جو بائیڈن انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے دوران امریکی افواج کی مدد کرنے والے افغان مترجمین کو ملک سے نکال کر لےجانے کے لیے تیار ہے، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان افراد کی منزل کیا ہوگی اور انہیں پروازوں تک محفوظ طور پر پہنچنے کو کس طرح یقینی بنایا جائے گا۔خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈپریس (اے پی) کے مطابق وائٹ ہاوس نے بتایا کہ آپریشن الائیز ریفیوج کے نام سے یہ مشن جولائی کے آخری ہفتے میں شروع ہوگا اور سب سے پہلے ان افغان شہریوں کو افغانستان سے باہر لے جایا جائے گا جو پہلے ہی امریکا میں رہائش کی درخواست دے چکے ہیں۔وائٹ ہائوس کی ترجمان جین ساکی نے تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان افراد کی تعداد اور دیگر تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا،جنہیں پہلی پروازوں سے افغانستان سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا۔ جین ساکی کا کہنا تھاہم جس وجہ سے یہ اقدامات کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ لوگ کافی بہادر ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے اس کردار کے معترف ہوں جو انہوں نے گذشتہ کئی سال کے دوران ادا کیا ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا انہیں کسی تیسرے ملک بھی منتقل کیا جا سکتا ہے جس میں امریکا کا ایک علاقہ گوام بھی شامل ہے، جین ساکی کا کہنا تھا،میں نہ تو اس کی تصدیق کر سکتی ہوں اور نہ ہی اس سے انکار کر سکتی ہوں۔ لیکن، یہ بات واضح ہے کہ جن لوگوں کو افغانستان سے نکالا جا رہا ہے، ان کی سکیورٹی ہمارے لیے سب سے اہم ہے اور ہم اس پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔امریکی فوج کی مدد کرنے والے افغان مترجمین کو افغانستان سے نکالنے کے لیے پروازو ں کی تصدیق ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے جنرل آسٹن اسکاٹ ملر سے ملاقات کی۔ جنرل اسکاٹ ملر رواں ہفتے ہی افغانستان میں امریکا کے اعلی ترین سابق فوجی کمانڈر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔جین ساکی کا کہنا تھادراصل صدر بائیڈن افغانستان سے امریکی افواج کے ’’منظم اور محفوظ‘‘ انخلاء یقینی بنانے پر بذات خود جنرل اسکاٹ ملر کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔جنرل ا سکاٹ ملر تین سال تک افغانستان میں امریکی افواج کی جنگی سرگرمیوں کے نگراں رہے۔ انہوں نے اپنی کمانڈ کے آخری دنوں میں افغانستان کے کئی اضلاع کے طالبان کے قبضے میں جانے پر تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو ملک میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا خدشہ دکھائی دے رہا ہے۔صدر بائیڈن پر افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے قبل ملک کی دونوں سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی جانب سے افغان مترجمین کی مدد کرنے کے لیے دباؤ تھا۔ وائٹ ہاؤس نے امریکی قانون سازوں کو گذشتہ مہینے اس حوالے سے بریف بھی کیا تھا۔افغانستان سے باہر منتقل کیے جانے کے اس منصوبے میں ممکنہ طور پر دسیوں ہزار افغان شامل ہو سکتے ہیں۔کئی ہزار افغان شہری جنہوں نے امریکی افواج کے ساتھ کام کیا اور ان کے اہل خانہ پہلے ہی خصوصی امیگرنٹس ویزوں کی درخواستیں جمع کرا چکے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق کابل میں موجود امریکی سفارت خانے نے مارچ میں 299 خصوصی امیگرنٹس ویزے جاری کیے تھے جبکہ اپریل میں یہ تعداد 356 اور مئی میں 619 رہی تھی۔ گذشتہ ہفتے امریکی صدر بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ امریکی حکومت ان کی حلف برداری سے اب تک 2500 خصوصی امیگرنٹس ویزوں کی منظوری دے چکی ہے۔اس وقت تک امریکیوں کے لیے بطور مترجمین، ڈرائیورز اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے 18 ہزار شہری امریکی ویزوں کے لیے درخواستیں جمع کروا چکے ہیں اور اپنی درخواستوں کے منظور ہونے کے منتظر ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کسی ایسے ملک یا خطے کی نشاندہی کرنے کے لیے بھی کام کر رہی ہے جہاں ان افراد کو ویزے جاری ہونے تک رکھا جا سکے۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے لیے مترجم اور دیگر شعبوں میں خدمات سر انجام دینے والوں نے کابل میں گزشتہ دنوں مظاہرے کیے تھے اور کہا تھا کہ بین الاقوامی فورسز کے انخلا کے بعد وہ اور ان کے خاندان طالبان کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ انہیں پہلے ہی جان سے مار دینے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں امیگریشن دے کر امریکا منتقل کیا جائے۔ تاہم، طالبان نے کہا تھا کہ وہ ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے۔صدر بائیڈن 31 اگست تک فوجی انخلا مکمل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ کو اس بارے میں پورا یقین ہے کہ افغانستان کی مسلح افواج کے پاس اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لئے وسائل اور صلاحیت موجود ہے اور یہ کہ اس تنازع کو بالآخر مذاکرات کی میز پر حل کرنا پڑے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں