اسلام آباد (پی این آئی)ملک کے مختلف اداروں اور ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن میں آن لائن شاپنگ اور بینکنگ پر زیادہ انحصار کے باعث دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سائبر کرائمز میں اضافے کا خدشہ ہے۔ تاہم ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے تازہ ترین
اعدادو شمار کے مطابق لاک ڈاؤن میں انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال کے باوجود سائبر کرائم میں تقریباً 50 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔نجی نیوز کے پاس دستیاب ایف آئی اے کے ڈیٹا کے مطابق لاک ڈاؤن سے قبل کے تین ہفتوں میں سائبر کرائم کی 923 وارداتیں رپورٹ ہوئیں جبکہ لاک ڈاؤن کے ابتدائی تین ہفتوں میں صرف 488 ایسی وارداتیں رپورٹ کی گئیں۔’ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر وقار چوہان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ‘گذشتہ دو ماہ کے عرصے میں ان کے ادارے نے سائبر کرائم میں ملوث چھ بدنام زمانہ گینگز کو بے نقاب کر کے 45 ملزمان کو پکڑا ہے جس کی وجہ سے سائبر کرائم میں خوش گوار کمی دیکھنے میں آئی ہے۔’یاد رہے کہ جہاں لاک ڈؤان کے باعث گلیوں اور سڑکوں پر مجرموں کی تعداد کم ہوئی ہے وہیں بیشتر ممالک میں سائبر سپیس میں ان کی تعداد بڑھی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں سائبر کرائمز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم پاکستان میں ان جرائم کی کمی کی وجہ ایف آئی اے کے مطابق جرائم پیشہ افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کے علاوہ عوامی آگاہی کی بھرپور مہم بھی ہے۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ‘لاک ڈاون سے قبل کی گئی وارداتوں میں سے شکایت کنندگان نے تقریباً چھ کروڑ روپے کے فراڈ کے مقدمات درج کروائے تھے جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران چار کروڑ 22 لاکھ کے نقصان کے کیسز درج کروائے گئے۔’ خیال رہے کہ کئی مقدمات میں نقصان ہونے والی رقم کا ذکر نہیں کیا جاتا۔لاک ڈاؤن سے قبل موصول ہونے والی شکایات،اعدادو شمار کے مطابق یکم مارچ سے 22 مارچ تک کے عرصے کے دوران کل 923 شکایات رجسٹر کی گئیں جن میں 154 آن لائن بینکنگ کے فراڈ سے متعلق تھیں جبکہ 130 ویب سائٹ کے فراڈ، 497 موبائل بینکنگ، 141 سوشل میڈیا فراڈ اور ایک شکایت نامعلوم کیٹگری کی درج کروائی گئی۔ کل موصول شکایات میں سے 291 میں درخواست دائر کرنے والوں نے لوٹی گئی رقم کا ذکر نہیں کیا۔لاک ڈاؤن کے بعد کی صورتحال،لاک ڈاؤن کے بعد ایف آئی اے کے جمع کردہ 23 مارچ سے 14 اپریل تک کے ڈیٹا کے مطابق ‘اس عرصے کے دوران کل 488 شکایات رجسٹر کی گئیں جن میں 89 آن لائن بینکنگ کے فراڈ سے متعلق تھیں جبکہ 70 ویب سائٹس کے فراڈ، 273 موبائل بینکنگ، 50 سوشل میڈیا فراڈ اور چھ شکایات نامعلوم کیٹگری میں درج کروائی گئیں۔ کل موصول شکایات میں سے 124 میں درخواست دائر کرنے والوں نے لوٹی گئی رقم کی کا ذکر نہیں کیا۔عام جرائم میں بھی واضح کمی،اس سے قبل اسلام آباد، راولپنڈی اور کراچی میں پولیس کی جانب سے اردو نیوز کو فراہم کردہ اعدادو شمار میں سامنے آیا تھا کہ ‘کورونا کے نتیجے میں جاری لاک ڈاؤن کے دوران ڈکیتی، چوری اور قتل جیسے جرائم میں 30 سے 50 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔’تاہم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی چار سے 10 اپریل تک کی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا تھا کہ ‘لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن جرائم یا سائبر کرائم کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔’اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ‘جرائم پیشہ افراد ویڈیو ایپ زوم اور دیگر ایپلی کیشنز کو استعمال کر رہے ہیں۔’رپورٹ میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی امداد کے خلاف کام کرنے والے ادارے ایف اے ٹی ایف کی ایڈوائزری کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ‘غیر قانونی امدادی اداروں اور طبی فراڈ کے حوالے سے سائبر کرائم میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔’اس سلسلے میں ایف آئی اے اور مالیاتی اداروں نے اقدامات کرتے ہوئے صارفین کو ہوشیار رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بھی خبردار کیا ہے کہ ‘کورونا وائرس کی معلومات کے جھانسے میں سائبر کرائم کا خطرہ ہے اس لیے لوگ پبلک وائی فائی کے استعمال سے گریز کریں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں