آئندہ بجٹ سے قبل منی بجٹ لانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، جس کے تحت متعدد اشیا پر نئے ٹیکس عائد کیے جا سکتے ہیں۔ حکومت نے ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے لیے کھاد، زرعی ادویات اور سرجری آئٹمز پر ٹیکس لگانے کی یقین دہانی آئی ایم ایف کو کرا دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان ٹیکس ہدف پورا کرنے کے لیے اضافی ٹیکس اقدامات اور اخراجات میں کمی کے لیے تیار ہے۔ دسمبر 2025 کے آخر تک کم ٹیکس وصولی کی صورت میں پاکستان اضافی ٹیکس اقدامات کا منصوبہ رکھتا ہے۔ فرٹیلائزرز اور پیسٹی سائیڈز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ اور ہائی ویلیو شوگر آئٹمز پر نیا ٹیکس بھی شامل ہے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو متعدد مخصوص اشیا پر 18 فیصد سیلز ٹیکس نافذ کرنے کے اقدامات سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محصولات کم ہونے پر اخراجات میں کمی کا پلان بھی موجود ہے جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں مزید کمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 15 فیصد تک بڑھانے کے منصوبے پر عمل کر رہا ہے۔ رواں مالی سال پاکستان کو 4 ارب ڈالر کے فنانسنگ گیپ کو ختم کرنا ہوگا، جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 2 ارب ڈالر کی قسطیں مل سکتی ہیں۔ سعودی عرب کی آئل سہولت کے تحت ایک ارب ڈالر کا ادھار تیل ملنے کی بھی توقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک سے 50 کروڑ 40 لاکھ ڈالر، عالمی بینک گروپ سے 50 کروڑ ڈالر کی بجٹ سپورٹ اور بین الاقوامی بانڈ سے 25 کروڑ ڈالر حاصل ہونے کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ریونیو شارٹ فال کی صورت میں کھاد، زرعی ادویات اور سرجری آلات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ کی جائے گی۔ اگلی قسط کے لیے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز میں نئے ٹیکس اقدامات سمیت متعدد نئی شرائط بھی شامل کر دی گئی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت سرکاری ملکیتی اداروں کے قانون میں اگست 2026 تک تبدیلی کرے گی جبکہ ایف بی آر نے بھی مزید ٹیکس لگانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ حکومت نے شوگر سیکٹر کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ توانائی شعبے میں اصلاحات، ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور لاگت میں کمی کے حوالے سے اقدامات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق حالیہ سیلاب سے 70 لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ ایک ہزار کے قریب اموات ہوئیں۔ سیلاب نے انفرا اسٹرکچر، گھروں اور لائیو اسٹاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔ رواں مالی سال مرکزی بینک مہنگائی کی شرح 7 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کر رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ دو برسوں میں ملک بھر کے بڑے 40 ہزار ریٹیلرز پر پوائنٹ آف سیلز سسٹم نصب کیا جائے گا۔ مالی سال 2024 میں 52 لاکھ اور 2025 میں 70 لاکھ انکم ٹیکس ریٹرنز فائل کیے گئے۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ چاروں صوبوں کے درمیان سیلز ٹیکس میں ہم آہنگی پیدا کی جائے گی جبکہ مالی سال 2027 میں نئے منصوبوں پر پی ایس ڈی پی کا صرف 10 فیصد خرچ ہوگا۔ پی ایس ڈی پی کے 2500 ارب روپے کے منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔
آئندہ مالی سال موسمیاتی تبدیلی کے منصوبوں پر زیادہ توجہ دی جائے گی اور سرکاری خریداری کے لیے ای پیڈز کا استعمال بڑھایا جائے گا۔ آڈیٹر جنرل مارچ 2026 تک اس حوالے سے رپورٹ صدر مملکت کو پیش کرے گا۔
جنوری 2026 سے کفالت پروگرام کی سہ ماہی رقم بڑھا کر ساڑھے 14 ہزار روپے کر دی جائے گی جبکہ مستحقین کی تعداد ایک کروڑ دو لاکھ تک بڑھائی جائے گی۔ بسپ پروگرام کے تحت رقوم کے حصول کے لیے بائیومیٹرک ویری فکیشن اور ای والٹ جون تک متعارف کرایا جائے گا۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ٹیرف ریبیسنگ کا عمل جولائی کی بجائے اب جنوری 2026 سے ہوگا۔ گزشتہ مالی سال بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ کم ہو کر 1614 ارب روپے رہ گیا ہے۔
کمرشل بینکوں کے ساتھ 1.2 ٹریلین روپے کے معاہدوں کی جنوری 2026 تک سیٹلمنٹ کر دی جائے گی، جن میں سے 660 ارب روپے پرائیویٹ ہولڈنگ لمیٹڈ کو اور باقی سی پی پی اے کو ادا کیے جائیں گے۔ گردشی قرضے میں کمی کے لیے 128 ارب روپے کی آئی پی پیز سود معافی بھی شامل ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں






