اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ 2 کیس میں ضمانت منظور کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس 2 میں ضمانت کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی، بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرسلمان صفدر، ایف آئی اے اسپیشل پراسیکوٹرز عمیر مجید ملک اور ذوالفقارعباس نقوی عدالت میں پیش ہوئے۔طویل سماعت کے بعد عدالت نے عمران خان کی 10 لاکھ روپے مچلکے کے عوض ضمانت منظور کی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے درخواست ضمانت منظور کی۔
اس حوالے سے عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی ضمانت منظور کی جاتی ہے اور توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کو رہا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے 10، 10 لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا، ساتھ ہی ضمانت کے بعد بانی پی ٹی آئی کو ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا کہ ٹرائل میں عدالت سے تعاون نہ کیا تو ضمانت کا آرڈر واپس ہوسکتا ہے۔
سماعت کا احوال
اس سے قبل جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ حکومت توشہ خانہ کی تفصیلات نہیں بتاتی تھی، ہم پوچھتے تھے تو توشہ خانہ کی تفصیلات چھپائی جاتی تھیں۔
ایف آئی اے پراسیکوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ گزارش کرنی تھی کہ فیصلہ کچھ بھی ہو لیکن میڈیا پر پہلے بات شروع ہوگئی، پہلے ہی میڈیا میں آگیا آج ضمانت ہوجائے گی۔
میڈیا سنسنی نہیں پھیلائے گا تو ان کا کاروبار کیسے چلے گا؟ جج اسلام آباد ہائیکورٹ
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایف آئی اے پراسیکوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا کیا ہے میڈیا میں تو کہا جاتا ہے جان بوجھ کے بیمار ہوگئے، آپ میڈیا کو چھوڑ دیں اس سے خود کو الگ کر لیں، میڈیا اگر سنسنی نہیں پھیلائے گا تو ان کا کاروبار کیسے چلے گا۔
عدالت نے وکیل صفائی سے استفسار کیا کہ انہوں نے جیولری سیٹ کا تخمینہ کیسے لگایا؟ جس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ یہ تو عدالت میں استغاثہ بتائے گی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پوچھا کہ چالان میں رسید بشریٰ بی بی کی ہے یا عمران خان کی؟ جس پر بیرسٹر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ چالان میں رسید پر بشریٰ بی بی کا نام ہے، صہیب عباسی کو اس کیس میں وعدہ معاف گواہ بنایا گیا ہے جبکہ انعام اللہ شاہ کو استغاثہ نے گواہ بنایا ہے وہ وعدہ معاف گواہ نہیں ہیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اسلام آباد کی تمام پراسیکوشن ایجنسیز نے توشہ خانہ کیس پر ہاتھ سیدھا کیا، نیب، ایف آئی اے، پولیس اور الیکشن کمیشن نے بھی توشہ خانہ کیس کیا ہے، پولیس نے بھی توشہ خانہ جعلی رسید کا کیس بنایا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ الزام ہے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ذاتی مفاد کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا، اس چالان میں یہ واضح نہیں کہ مرکزی ملزم کون ہے، 2 ملزمان ہیں اس میں دفعہ 109 میں کس کا کردارہے کوئی واضح نہیں، توشہ خانہ نیب کیس میں بانی پی ٹی آئی کو 14 سال کی سزا ہوئی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ اسلام آباد پولیس نے کیا مقدمہ بنایا ہے؟ جس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ تھانہ کوہسار پولیس نے جعلی رسیدوں کا مقدمہ بنایا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ توشہ خانہ پالیسی کے مطابق تحائف لئے گئے ہیں، اس وقت ان تحائف کی جو مالیت تھی پالیسی کے مطابق ادا کرکے لیے، توشہ خانہ پالیسی 2018 کی سیکشن 2 کے تحت تحائف لیے، جو قیمت کسٹم اور اپریزر نے لگائی ہم نے وہ قیمت دے کر تحفہ رکھ لیا، آج انہوں نے ساڑھے تین سال بعد بیان بدلا ہے۔
پچھلی حکومت توشہ خانہ کی تفصیلات نہیں بتاتی تھی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پی ٹی آئی حکومت کی توشہ تفصیلات خفیہ رکھنے کی پالیسی پر اہم ریمارکس دیے کہ پچھلی حکومت توشہ خانہ کی تفصیلات نہیں بتاتی تھی، ہم پوچھتے تھے تو توشہ خانہ کی تفصیلات چھپائی جاتی تھیں، ہائیکورٹ میں گزشتہ حکومت کہہ رہی تھی کہ توشہ خانہ کا کسی کو پتہ نہیں ہونا چاہیئے۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ اپریزر صہیب عباسی کہتا ہے مجھے بانی پی ٹی آئی نے تھریٹ کیا جبکہ عمران خان اور بشری بی بی کی تو ملاقات ہی صہیب عباسی سے کبھی نہیں ہوئی ، کسٹم کے تینوں افسران نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم پر پریشر نہیں تھا ، اگر پریشر نہیں تھا تو انہوں نے پھر صحیح قیمت کیوں نہیں لگائی، صہیب عباسی ایک شخص آتا ہے وہ اپنا بیان بھی قسطوں میں دیتا ہے، گراف جیولری لسٹ پرالگ اب بلغاری سیٹ پرالگ بیان دیا ہے۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکوٹر عمیر مجید ملک نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا ایف آئی اے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کیا کہ کیا آپ نے گواہوں کے بیانات پڑھے ہیں؟ جس پر تفتیشی افسر ایف آئی اے نے بتایا کہ 18 ستمبر کو گواہوں کو نوٹس کیا تھا، گواہ آئے تھے انہوں نے (پہلے سے نیب کو دیے) بیانات کی تصدیق کی۔
عدالت نے پھر استفسار کیا کہ کیا آپ نے خود گواہوں کے بیانات پڑھے ہیں؟ جس پر ایف آئی اے تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ جی 19 ستمبر کو میں نے پڑھے تھے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ بلغاری سیٹ توشہ خانہ میں جمع ہی نہیں کرایا گیا، ریاست کے تحفے کی کم قیمت لگوا کر ریاست کو نقصان پہنچایا گیا، بانی پی ٹی آئی اور اُنکی بیوی دونوں نے فائدہ اٹھایا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ بانی پی ٹی آئی کو کیسے فائدہ ہوا؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جب بیوی کو فائدہ ملا تو شوہر کا بھی فائدہ ہوا۔
میری بیوی کی چیزیں میری نہیں ہیں، ہم پتہ نہیں کس دنیا میں ہیں، جسٹس میاں گل حسن
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ او پلیز، میری بیوی کی چیزیں میری نہیں ہیں، ہم پتہ نہیں کس دنیا میں ہیں۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی توشہ خانہ 2 کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت میں وقفہ کر دیا۔ ڈویژن بینچ کے بعد ایف آئی اے وکیل دلائل جاری رکھیں گے۔
پس منظر
یاد رہے کہ 12 ستمبر 2024 کو توشہ خانہ ٹو کیس کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اےکی تین رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی تھی۔
نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد احتساب عدالت نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلا توشہ خانہ ٹو ریفرنس نیب سے ایف آئی اے کو منتقل کردیا تھا۔
قبل ازیں، عدالت نے توشہ خانہ 2 ریفرنس کا ریکارڈ اسپیشل جج سینٹرل کی عدالت کو منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
جبکہ 13جولائی کو نیب نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو عدت نکاح کیس میں ضمانت ملنے کے فوری بعد توشہ خانہ کے ایک نئے ریفرنس میں گرفتار کرلیا تھا۔
نیب کی انکوائری رپورٹ کے مطابق نیا کیس 7 گھڑیوں سمیت 10 قیمتی تحائف خلاف قانون پاس رکھنے اور بیچنے سے متعلق ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں