سینیٹر ناصر محمود بٹ کی زیرِ صدارت قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا اجلاس ہوا۔
چیئرمین کمیٹی نے آئی جی پولیس سے سوال کیا کہ پولیس نے سرکاری گھروں پر کیوں قبضہ کیا ہوا ہے؟آئی جی اسلام آباد پولیس نے جواب دیا کہ جی سکس میں کچھ پولیس افسران و اہلکار گھروں میں رہائش پزیر ہیں، پولیس نے دیگر محکموں کے فلیٹس پر قبضہ کیا ہوا ہے، 12 ہزار سے زائد پولیس اہلکار ہیں، 314 فلیٹس پولیس کے زیرِ استعمال ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے آئی جی کی بات سننے کے بعد سوال کیا کہ کیا آپ غیر قانونی گھروں کو خالی نہیں کریں گے؟
جس پر آئی جی پولیس نے جواب دیا کہ جی بالکل بھی خالی نہیں کریں گے۔یہ سن کر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق پولیس کو غیر قانونی قبضےختم کرنا ہوں گے۔آئی جی پولیس نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ غیر قانونی گھروں کو خالی کرنے کے حوالے سے نہیں ہے، اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کوئی کمیٹی بنائی جائے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2018ء میں فیصلہ دیا اور 6 سال گزر گئے ہیں۔آئی جی پولیس نے جواب دیا کہ صرف 114 گھروں کا معاملہ متنازع ہے۔
اس معاملے پر سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو نے کہا کہ ہم سینیٹ والے بھی اپنی فورس بنا کر قبضہ کر لیتے ہیں۔اُنہوں نے سوال کیا کہ رپورٹ کمیٹی ممبران کو رولز کے مطابق 48 گھنٹے پہلے کیوں نہیں ملی؟چیئرمین کمیٹی نے جواب دیا کہ سیکریٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو کمیٹی میٹنگ کے ایجنڈے کا علم ہی نہیں، چیئرمین سی ڈی اے کہاں ہے؟ سی ڈی اے ممبر نے جواب دیا کہ چیئرمین سی ڈی اے احسن اقبال کے بلاوے پر تشریف لے گئے ہیں۔جس پر کمیٹی ممبران نے تجویز دی کہ چیئرمین سی ڈی اے کی آمد تک کمیٹی اجلاس کو روک دیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں