سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہےمجھے لگتا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی نہیں بچیں گے، ہو سکتا ہے کوئی انھیں بچانے کی کوشش کر رہا ہو۔
نجی ٹی وی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے انکشاف کیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو جنرل فیض حمید ہی نہیں سابق آرمی چیف جنرل باوجوہ بھی استعمال کر رہے تھے، جب جنرل قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کے مفادات آپس میں ٹکرانے لگے تو ان کی راہیں جدا ہوگئیں۔فیض حمید کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کے مؤقف پر بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ میرا اب بھی یہی کہنا ہے کہ جنرل فیض تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں سے رابطے میں تھے،
فیض حمید کی گرفتاری سے پہلے پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں نے آف دی ریکارڈ فیض حمید سے شکوے شکایات شروع کیے ہوئے تھے، اب ان کی گرفتاری پر رابطوں سے انکاری کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف کو فائدہ ہوا کیونکہ جنرل فیض پی ٹی آئی کے معاملے میں مداخلت کرتے تھے اور ڈکٹیشن دینے کی کوشش کرتے تھے لیکن وہ اب بند ہوگئی ہے، دوسری جانب پی ٹی آئی کے چند رہنماؤں کا خیال ہے کہ فیض صاحب کا پارٹی سے ذاتی سطح پر رابطے میں کوئی برائی نہیں تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت کے کسی لگائے گئے عہدیدار کو ہٹانے کے مطالبے پر پی ٹی آئی کا فیض حمید سے اختلاف تھا۔
حامد میر نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں درجنوں ایسے لوگ ہیں جن کا تعلق سیاست سمیت کئی دوسرے شعبوں سے بھی ہے جو میڈیا میں آکر یہ بتانے کو تیار ہیں کہ جنرل فیض حمید نے ان کے گھر میں ڈکیٹیاں کروائیں، ڈی جی آئی ایس آئی ہوتے ہوئے فیض حمید نے پاکستان کے بہت بڑے وکیل کے گھر ڈکیتی کروائی، وہ وکیل جنرل پرویز مشرف کے بغاوت کے مقدمے میں ایک اہم کردار تھا اور اس مقدمے کے حوالے سے کتاب لکھ رہا تھا، ڈکیتی کا مقصد انھیں اس کتاب کو لکھنے سے روکنا تھا۔دوران پروگرام حامدمیر نے بتایا کہ سپریم کورٹ بار ایسوایشن کے سابق صدر نے مجھے بتایا کہ جنرل فیض حمید نے میرے گھر پر ڈکیٹی کروائی اور پھر کراچی کے عالم دین کے ذریعے جنرل باجوہ نے مجھے آرمی ہاؤس بلوایا اور سوری کیا۔
حامد میر کے مطابق جس کا مطلب ہے کہ جنرل قمر باجوہ کو علم تھا کہ فیض حمید کیا کر رہے ہیں جس کا اعتراف سابق آرمی چیف نے خود وکیل سے کیا کہ آپ کے گھر ڈکیٹی ہوئی دستاویزات ،گھڑیاں اور لاکھوں روپے لے گئے جس پر وکیل نے جنرل باجوہ سے کہا تھا کہ میری چیزیں تو واپس دلوا دیں لیکن اسے بھی وہ چیزیں نہ ملیں۔سینئر صحافی کا کہنا تھا مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کو 25 سال قید کی سزا بھی فیض حمید نے کروائی تھی، حنیف عباسی کو گرفتار کرنے سے قبل ملک چھوڑنے اور سیاست چھوڑنے کی پیشکش ہوئی اور کہا گیا کہ آپ کو گرفتار نہیں کریں گے لیکن جب انھوں نے انکار کر دیا تو انھیں گرفتار کر لیا گیا، اس کے بعد حنیف عباسی کے بیٹے نے جب فیصلے کے خلاف پٹیشن فائل کی تو ان کے گھر ایک شخص کو بھیجا گیا اور کہا گیا کہ پٹیشن دائر نہ کریں آپ کے والد نے باہر نہیں آنا۔
انہوں نے بتایا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس فائل ہونے سے قبل جنرل باجوہ نے ہم 4 صحافیوں کو رات کے وقت آرمی ہاؤس بلوایا تھا، اس وقت جب جنرل باجوہ نے ہمارے سامنے قاضی فائز عیسیٰ کی چارج شیٹ پیش کی تب میں نے باجوہ صاحب کو کہا تھا کہ آپ قاضی فائز عیسیٰ سے 100 طرح کا اختلاف کر سکتے ہیں، ہر حکومت ان کے فیصلوں سے ناراض ہوتی ہے اور ایک اچھے جج کے خلاف سب حکومتیں ناراض ہو جاتی ہیں لہٰذا آپ کو ان کے خلاف ریفرنس نہیں دائر کرنا چاہیے۔حامد میر کے مطابق میں پہلا صحافی تھا جس نے جنگ میں بھی کالم لکھا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے جس پر مجھے عمران خان نے بلاکر پوچھا تھا کہ آپ نے یہ کالم کیا لکھا ہے؟ میں نے کہا تھا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ آپ لوگ کچھ کر رہے ہیں، اس وقت ارشاد بھٹی میرے ساتھ تھے جس پر عمران خان نے مجھے کہا تھا کہ میرے پاس معاشی چیلنجز ہیں آپ بے فکر رہیں، میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس فائل نہیں کر رہا۔سینئر صحافی نے مزید کہا کہ میری قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی ملاقات بھی نہیں تھی، تھوڑے دن بعد ایک صحافی کے ذریعے ریفرنس فائل ہوگیا جس پر میرے پوچھنے پر عمران خان نے کہا تھا کہ میرے اوپر پریشر بہت تھا جس کا مطلب یہی ہے کہ جنرل فیض حمید اکیلے نہیں تھے بلکہ جنرل باجوہ بھی ان کے ساتھ تھے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں