اسلام آباد(پی این آئی )انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے فیض آباد دھرنا کمیشن کو بیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔
جنرل (ر) فیض حمید نے کمیشن کی طرف سے دیے گئے سوالوں کے جواب دیے۔
گزشتہ ہفتے فیض آباد دھرنا کیس کے تحقیقاتی کمیشن نے فیض حمید کو دوسری بار طلب کیا تھا۔ تاہم وہ پیش نہیں ہوئے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق انہیں جاری نوٹس میں کہا گیا تھا کہ وہ آباد دھرنا کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کرائیں۔
فیض حمید نے جواب میں کہا کہ حکومت کی ہدایت پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے مذاکرات کئے۔
انہوں نے حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزامات کی تردید کردی۔
دھرنا کمیشن ڈاکٹر اختر علی شاہ کی سربراہی میں کام کررہا ہے، کمیشن میں سابق آئی جی طاہر عالم اور خوشحال خان بھی موجود ہیں۔
واضح رہے کہ 15 نومبر کو سپریم کورٹ میں فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے سے متعلق اس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت نے کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کمیشن میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، دو ریٹائرڈ سابق آئی جیز طاہر عالم خان اور اختر شاہ شامل ہیں۔
کمیشن کو فیض آباد دھرنا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے لیے ٹی ایل پی کو فراہم کی گئی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کی انکوائری کا کام سونپا گیا ہے۔فیض آباد دھرنا کیس میں تحقیقاتی کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی طلب کیا تھا، تاہم وہ پیش نہ ہوئے۔15 نومبر کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ حکومت کا تشکیل کردہ انکوائری کمیشن سابق وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بلا کر بھی تفتیش کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا تھا کہ کسی کو استثنیٰ نہیں، سب کو کمیشن بلا سکتا ہے۔
فیض آباد دھرنا
یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔
حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں