اسلام آباد(پی این آئی )سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے جس کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ منافق کافر سے زیادہ خطرناک ہے، آمروں نے صادق و امین کی شرط اپنے لیے کیوں نہ رکھی ؟۔
جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 7 رکنی بینچ نے 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کا آغاز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے تین عدالتی معاونین مقرر کیے تھے، ریما عمر نے اپنا تحریری جواب بھجوایا ہے جس کے بعد عدالتی معاون کے جواب کی نقول فریقین کو فراہم کر دی گئیں جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ میں اپنی گزارشات 30 منٹ میں مکمل کر لوں گا۔
فیاض احمد غوری اور سجاد الحسن کے وکیل خرم رضا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اٹھایا کہ
سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟، کیا یہ کیس 184 تین کے تحت سنا جا رہا ہے یا 187 کے تحت؟ ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنا کیس چلائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لا کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184تین سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے، سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟۔
خرم رضا نے کہا کہ ٹریبونل سے آنے والے فیصلے کیخلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیار میں سنتی ہے جس پر چیف جسٹس نے وکیل سے اتفاق کرتے ہوئے سوال اٹھائے کہ کیا 62ون ایف ٹریبونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟ کیا تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سیدھا سپریم کورٹ کے پاس ہے؟۔
عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ
وکیل خرم رضا نے عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنی ہی معروضات کی نفی کرنے والی بات کر رہے ہیں،جب 62 ون ایف کے تحت کوئی ٹریبونل نہیں کرتا تو سپریم کورٹ کیسے کر سکتی ہے؟
کیا سپریم کورٹ الیکشن معاملے میں اپیلٹ فورم کے طور پر کام نہیں کرتی؟ اضافی اختیار تاحیات نااہلی والا یہ کہاں لکھا ہے؟۔
خرم رضا نے کہا کہ سپریم کورٹ ڈیکلریشن دے سکتی ہے، جن کیسز میں شواہد ریکارڈ ہوئے ہوں وہاں سپریم کورٹ ڈیکلریشن دے سکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر تو آپ سمیع اللہ بلوچ کیس کی حمایت نہیں کر رہے جس کے جواب میں خرم رضا نے کہا کہ میں ایک حد تک ہی اس کیس کی حمایت کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ،ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائر ہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگرالیکشن کمیشن تاحیات نااہل کرسکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کاغذات نامزدگی جمع ہونے سے پہلے ڈیکلریشن لازم ہے۔
آپ نے جو تفریق بتائی اس سے متفق نہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک الیکشن میں کوئی گریجویٹ نہ ہونے پر نااہل ہوا، اگلی بار گریجویشن کی شرط ہی نہیں تواس وقت وہ نااہل کیسے ہو گا؟ ایک شخص دیانتداری سے کہتا ہے وہ میٹرک پاس ہے اس پر وہ اگلے الیکشن میں بھی نااہل کیسے ہے؟ ، آپ نے جو تفریق بتائی اس سے متفق نہیں ، ایسے تو کوئی غیر ملکی بھی الیکشن لڑ کر منتخب ہو سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ہدایت کی کہ آپ آرٹیکل 62 اور 63 کی پہلی پہلی سطر پڑھیں جس پر وکیل نے کہا کہ عدالت نے صرف 62 ون ایف کی تشریح کرنی ہے، جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں ہم 62 اور 63 کو ملا کر نہیں تشریح کر سکتے، قتل اور اغوا جیسے کیسز میں تو بندہ دوبارہ الیکشن کا اہل ہو جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی ڈیکلریشن کسی نہ کسی قانون کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، وہ قانون اب کہتا ہے یہ مدت 5 سال ہو گی جس پر وکیل نے بتایا کہ پارلیمانی بحث میں تسلیم کیا گیا 62 ون ایف مدت پر خاموش ہے۔
کافر کو پتہ نہیں ہوتا، منافق سب جان کر کر رہا ہوتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نااہلی کی یہ شقیں ایک ڈکٹیٹر نے شامل کیں درست یا غلط؟ یا تو ہم پھر ڈکٹیٹر شپ کو ٹھیک مان لیں، ایک ڈکٹیٹر آیا، دوسرا آیا، تیسرا آیا سب کو اٹھا کر پھینک دیا، منافق کافر سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے، کافر کو پتہ نہیں ہوتا، منافق سب جان کر کر رہا ہوتا ہے، پارلیمنٹ نے ایک قانون کتاب بنا کر ہمیں دی، ایک شخص ٹہلتا ہوا آتا ہے کہتا ہے نہیں یہ سب ختم ، آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لئے کیوں نہ ڈالی ؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کا تقدس تب ہو گا جب اسے ہم مانیں گے، یا تو ہم کہہ لیتے ہیں کہ بندوق کا تقدس مانیں گے، یہاں بیٹھے پانچ ججز کی دانش ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ کیسے ہو سکتی ہے؟ جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے۔
جنرل ایوب نے آکرسب کو باہر پھینک دیا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاحیات نااہلی سمیع اللہ بلوچ کیس میں لکھی گئی، وہ فیصلہ آج میں لکھ رہا ہوتا اور مدت 2 سال لکھتا تو وہ بھی ایک درست فیصلہ ہوتا؟ جنرل ایوب نے آکرسب کو باہر پھینک دیا اور اپنے قوانین لائے، پارلیمنٹرینز نےآئین بنایا، ڈکٹیٹروں نے آپ کو سیاست دانوں، آئین کو باہر پھینک دیا ، الیکشن 8 فروری کو ہونے جا رہے ہیں، ایک آر او کوئی بات کرے گا دوسرا کوئی اور،کیا آپ کنفیوژن پھیلائے رکھنا چاہتے ہیں، ہم نے یہ کیس اس لئے لگایا کہ سب کیلئے ایک وضاحت آ جائے۔
میرے والد ابڈو قانون کے ذریعے ایوب دور میں نااہل ہوئے، چیف جسٹس
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ کی دانش ہم سے زیادہ ہے یا کم؟ جس پر وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے تحت مدت کا تعین کر سکتی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرے والد ابڈو قانون کے ذریعے ایوب دور میں نااہل ہوئے، آپ آرٹیکل 225 کی بات کیوں نہیں کرتے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اٹھارہویں ترمیم میں 62 ون ایف میں شامل شقوں کی توثیق ہوئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ آرٹیکل 62 ون ایف کو اچھا سمجھتے ہیں؟ اٹھارہویں آئینی ترمیم تو صرف توثیق تھی، جو بھی ہے لیکن منتخب نمائندوں کی بنائی گئی قانون سازی کو حقارت سے نہیں دیکھا جا سکتا، کیا پانچ جنٹلمینز کی دانش پارلیمنٹ کے 326 اراکین کی دانش مندانہ قانون سازی کو ختم کو سکتی ہے؟۔
انفرادی کیسز کو اس کیس میں نہیں دیکھیں گے، چیف جسٹس
وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان نے تسلیم کر لیا کہ آئین خاموش ہے تو بھی آئینی ترمیم ضروری تھی جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان نے سزا دینی ہوتی تو آرٹیکل 63 کی طرح 62 میں بھی شامل کر دیتی جبکہ وکیل نے کہا کہ پارلیمان نے نااہلی کو برقرار رکھا ہے لیکن اس کی مدت کا تعین نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے کی کوئی نہ کوئی منطق ہونی چاہیئے ، خرم رضا نے بتایا کہ دو سال نااہلی کا آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے تو تاحیات نااہلی کا بھی کہیں نہیں لکھا ہوا۔
خرم رضا نے کہا کہ اگرعدالت 187 کا اختیار استعمال کرے تو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے غیرآئینی ہونے پر دلائل دوں گا۔
جسٹس علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کی جس پر وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج کی گئی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ نااہلی کی مدت کی تشریح پہلے سپریم کورٹ نے کی پھر پارلیمان نے جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ انفرادی کیسز کو اس کیس میں نہیں دیکھیں گے۔
آپ لوگ ڈکٹیٹرز کے سامنے کیوں نہیں بولتے؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے تاحیات نااہلی کی حمایت کرنے والے وکیل سے سوال کیا کہ آپ لوگ ڈکٹیٹرز کے سامنے کیوں نہیں بولتے؟ واضح کیا تھا کہ انتخابات قریب ہیں ریٹرننگ افسران کا کام متاثر ہوگا، کوئی ریٹرننگ افسر عدالتی فیصلہ مانے گا اور کوئی الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم، ریٹرننگ افسران وکیل نہیں بیوروکریٹ ہیں، کوشش ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے تاکہ ریٹرننگ افسران کنفیوز نہ ہوں، ہم اس کیس کو حل کئے بغیر نہیں چھوڑ سکتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا جعلی ڈگری پر نااہلی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہوگی؟ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ صادق اور امین کی تعریف کیا ہوگی؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ باقی سارا آئین انگریزی میں ہے امین کیلئے انہیں پتہ نہیں تھا انگریزی کا لفظ کیا ہے؟، جنرل ضیا یا ان کے وزیر قانون کو امین کا مطلب کیا پتہ نہیں تھا؟ یہ چیزیں صرف کنفیوژ کرنے کیلئے ڈالی گئیں یا کوئی وجہ بھی تھی؟۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ صادق و امین کا مطلب وہی ہے جو اسلام میں ہے جبکہ جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ کون طے کرے گا کس کا کردار اچھا ہے یا نہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ تو خدا ہی تعین کر سکتا ہے۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دو متضاد فیصلوں کاحوالہ
چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دو متضاد فیصلوں کاحوالہ دیا اور کہا کہ وہی جج سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی لکھتے ہیں لیکن انہوں نے فیصل واوڈا کیس میں مائنڈ تبدیل کیا،
وکیل عثمان کریم نے بتایا کہ اگر صادق و امین کا اسلامی مطلب دیکھیں گے تو پھر یہ نان مسلم پر نہیں لگے گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ غیر مسلم بھی صادق و امین ہو سکتے ہیں، وکیل خرم رضا سمیت جو تاحیات نااہلی کی حمایت کر رہے وہ اپنے نکات بتا دیں، تین وکلا نے تاحیات نااہلی کی حمایت کی تھی، عثمان کریم صاحب اور اصغر سبزواری صاحب کیا آپ خرم رضا کے دلائل اپنا رہے ہیں۔
وکیل اصغر سبزواری نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی “جج میڈ لاء” ہے، جہانگیرترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونا چاہئے جہاں ٹرائل کے بغیر تاحیات نااہل کر دیا گیا۔
قانون آچکا ہے ، نااہلی 5 سال کی ہوچکی، جسٹس منصورعلی شاہ
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون آچکا ہے ، نااہلی 5 سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، آمروں اورسیاست دانوں کوایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا، آمرآئین توڑ کر حکومت میں آتا ہے منتخب ہو کر نہیں آتا، سیاست دانوں کوایسے برا نہ بولیں وہ عوامی رائے سے منتخب ہوتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 الگ الگ لانے کی ضرورت کیا تھی؟ ایک آرٹیکل کہتا ہے کون کون اہل ہے، دوسرا کہتا ہے کون نااہل، دونوں باتوں میں فرق کیا ہے؟، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی دوسری شہریت لیتا ہے تو وہ 62 میں نہیں 63 میں پھنسے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں