اسلام آباد(پی این آئی)سپریم کورٹ میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے، ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے براہ راست کیس کی سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر لاپتہ افراد کیس کے درخواست گزار خوشدل خان ملک روسٹرم پر آگئے، انہوں نے استدعا کی کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟ جس پر خوشدل خان ملک نے کہا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت کو نوٹس کر کے پوچھے کہ 50 سال سے لاپتہ افراد کے بارے قانون سازی کیوں نہیں کی؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔
ہم پارلیمنٹ کو قانونی سازی کا حکم نہیں دے سکتے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ ہم پارلیمان کو یہ حکم نہیں کر سکتے کہ قانون سازی کریں، کل کو آپ ہی ہم پر تنقید کریں گے کہ پارلیمان کو حکم دیا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آپ کو میرے چیمبر میں آنے کی ضرورت نہیں، مجھے درخواست گزار کی جانب سے کوئی پٹیشن نہیں ملی، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 قانون بن گیا ہے، آپ ذرا سی زحمت کریں اس قانون کو پڑھ لیں، اگر آپ کو کوئی ذاتی مسئلہ ہے تو اس کا طریقہ کار الگ ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
دریں اثنا اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آگئے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کئے گئے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا اور میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی ہیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا؟ شعیب شاہین نے جواب دیا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نقطہ اُٹھایا گیا۔
لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام کر سکا اور نہ کر سکتا ہے: شعیب شاہین
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں اپنی استدعا بتائیں؟ جس پر شعیب شاہین نے جواب دیا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یہ کمیشن کب کا ہے تب کس کی حکومت تھی، شعیب شاہین نے جواب دیا کہ 2011 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران کمیشن بنا۔
اِس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن کیا اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرنا چاہتے ہیں؟ انگریزی کی مثال ہے کہ جب آپ تپش برداشت نہیں کر سکتے تو کچن میں کھڑے نہ ہوں۔
شعیب شاہین نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں، اس پر جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کتنے لوگ بازیاب ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اعتزازاحسن خود پیپلزپارٹی حکومت میں وزیر بھی رہے، شعیب شاہین نے جواب دیا کہ جب کمیشن بنا وہ شاید وزیر نہیں تھے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن کیا اس وقت بھی پیپلزپارٹی میں ہیں؟ شعیب شاہین نے کہا کہ جی وہ ابھی پیپلزپارٹی میں ہیں۔دلائل کے دوران شعیب شاہین نے شیخ رشید، صداقت عباسی اور دیگر کی گمشدگیوں کا معاملہ اُٹھا دیا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ سب لوگ خود ہمارے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟ کیا یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آسکیں؟
قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے، جو شخص دھرنا کیس میں نظرثانی لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں لگا سکتا، کل اگر شیخ رشید کہہ دیں کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں، شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا؟
شعیب شاہین نے عدالت کو آگاہ کیا کہ شیریں مزاری نے اس معاملے پر بل پیش کیا جو غائب ہو گیا تھا۔
مسئلہ یہ ہے جب عہدے پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا: چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ شیریں مزاری کا لاپتہ افراد سے متعلق بل اگر سینیٹ سے غائب کیا گیا تھا تو کیا شیریں مزاری نے استعفیٰ دیا تھا، شیخ رشید خود کتنی بار وزیر رہ چکے؟ کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹیگری میں رکھیں گے؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب سب عہدے پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بل کیا سینیٹ سے غائب ہوا تھا؟ چیئرمین سینیٹ کون ہے کس کے ووٹ سے بنے تھے؟
شعیب شاہین نے جواب دیا کہ سینیٹرز کے ووٹ سے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بنے، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نام لیں کہ کس پارٹی کے ووٹ سے بنے تھے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اتحاد سے وہ چیئرمین سینیٹ بنے تھے، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی پارٹی کے ووٹ سے بنے چیئرمین سینیٹ نے آپ کا بل گم کر دیا، کیا آپ نے اس پر انہیں ہٹانے کی درخواست کی؟ آپ نے چیئرمین سینیٹ پر ایک سنجیدہ الزام لگایا۔
شعیب شاہین نے کہا میں نے درخواست میں اس معاملے پر کوئی استدعا نہیں کی، یہ سارا واقعہ ایک بیک گراونڈ کے طور پر لکھا ہے، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے بل غائب ہونے کا ذکر کیا تو پھر صادق سنجرانی کو فریق تو بناتے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فرخ حبیب، عثمان ڈار، صداقت عباسی یہ لوگ کون ہیں؟ کیا اس بات پر رنجیدہ ہیں یہ پی ٹی آئی چھوڑ گئے؟ کیا ہم انہیں یہ کہیں کہ واپس پی ٹی آئی میں آجائیں؟
لاپتہ افراد نے واپس آ کر بتایا کہ وہ اغوا ہوئے تھے؟، جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ تمام لاپتہ افراد نے کیا واپس آ کر بتایا کہ وہ اغوا ہوئے تھے؟، جن لوگوں کو اغوا یا لاپتہ کیا گیا انہوں نے تو کبھی بیان نہیں دیا کہ فلاں نے ہمیں اغوا کیا بلکہ انہوں نے تو کہا کہ چلہ کاٹنے گئے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یا تو کسی کو اعتزاز احسن کے سامنے اٹھایا گیا ہو تو وہ بات کرے، یا کوئی خود آ کر کہے مجھے اغوا کیا گیا تھا تو ہم سنیں، آپ ان کی جگہ کیسے بات کر سکتے ہیں؟ شعیب شاہین کیا آپ ان کے گواہ ہیں؟
شعیب شاہین نے جواب دیا کہ پورا پاکستان گواہ ہے۔
اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایسے ڈائیلاگ نہ بولیں، آپ نے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کا ذکر نہیں کیا، آپ کی پوری درخواست ایک سیاسی جماعت کے گرد گھومتی ہے، آرٹیکل 184 تھری کے تحت ایک سیاسی مسئلے کو سنیں؟
کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، عدالت کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں: چیف جسٹس
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آپ نے صرف ایک پارٹی کے لوگوں کا ذکر کیا یہ سب پارٹی چھوڑ گئے، اس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں، ہم اس معاملے کو بہت سنجیدہ لینا چاہتے ہیں، سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کریں، لاپتا افراد کا کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، عدالت کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، پی ٹی آئی کے مبینہ گمشدہ افراد بااثر ہیں کچھ تو واپس آچکے ہیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ نے عمران ریاض کا ذکر بھی کیا، یہ کون ہے؟ کیا عمران ریاض اب بھی لاپتا ہے؟ جس پر شعیب شاہین نے جواب دیا کہ اب لاپتا نہیں مگر جب گھر واپس آئے تو حالت غیر تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمران ریاض اثرورسوخ والے نہیں؟ کیا مطیع اللہ جان اغواء نہیں ہوئے تھے؟ آپ مطیع اللہ جان اور اسد طور کا نام شامل کیوں نہیں کرتے، آپ ان لوگوں کا نام لے رہے ہیں جو اس بات پر کھڑے ہی نہیں کہ وہ اغواء ہوئے، مطیع اللہ جان اور اسد طور نے تو نہیں کہا کہ وہ شمالی علاقہ جات گئے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ میں مطیع اللہ جان کے کیس میں پیش ہوا تھا، بلوچ لاپتا افراد کا معاملہ بھی ہم نے درخواست میں اٹھایا ہے، تب بھی ظلم ہوا تھا مذمت کرتا ہوں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ اب آپ مذمت کر رہے ہیں جب آپ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے؟
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جن 2 صحافیوں کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ کسی جماعت سے وابستگی نہیں رکھتے، یہ 2 صحافی آزاد تصور کئے جاتے ہیں، اگر آپ بلا تفریق سب کے نام شامل کرتے تو آپ کی درخواست جاندار ہوتی، لاپتہ افراد سے متعلق دھرنا چل رہا ہے اس کا ذکر درخواست میں کیوں نہیں کیا؟
شعیب شاہین نے کہا کہ میری درخواست پہلے کی ہے، پولیس نے بلوچ مظاہرین کے ساتھ ظلم کیا، بلوچ مظاہرین کا کیس بھی آپ کے سامنے رکھوں گا۔
چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ ایک اور درخواست دائر کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ مفروضوں پر کارروائی نہیں کر سکتے، بلوچ مظاہرین سے متعلق درخواست دائر کریں۔
دریں اثناء عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ سینئر وکیل اعتزاز احسن سمیت متعدد درخواست گزاروں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں