شوکت صدیقی برطرفی کیس: سپریم کورٹ نے فیض حمید کو نوٹس جاری کردیا

اسلام آباد(پی این آئی) سپریم کورٹ نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف کیس میں سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید سمیت 4 افراد کو نوٹسز جاری کر دیئے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف کیس کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان بھی پانچ رکنی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے یہ الزام تو نہیں لگایا کہ فلاں جنرل وزیر اعظم بننا چاہ رہا تھا، وہ کون تھا جس کے لئے جرنیلوں پر یہ الزام آیا، ظاہر ہے جرنیل خود تو وزیراعظم نہیں بننا چاہ رہے تھے، شوکت عزیز صدیقی سے اس سوال کا جواب پوچھ لیجئے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ سابق فوجی افسران اور سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ کو فریق بنانے کی درخواست دی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ کے موکل نے جو الزامات لگائے وہ درست ہیں۔ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ جی بالکل تمام الزامات درست ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل حامد خان سے سوال کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی تقریر پر برطرف کیا گیا، دوبارہ پوچھ رہا ہوں سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں، کیا وہ جنرل جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے ؟ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا ؟ آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں، یہ بھی یاد رکھیں کہ اوریجنل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے، جس کی سہولت کاری کی جا رہی تھی کیا پھر اس کو بھی فریق بنانا چاہیئےم

چیف جسںٹس پاکستان نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سہولت کاروں کو فریق بنا رہے ہیں اصل بنیفشری تو کوئی اور ہے، آپ نے درخواست میں اصل بنیفشری کا ذکر ہی نہیں کیا، آپ نے لوگوں کی پیٹھ پیچھےالزامات لگائے، سہولت کاری کر کے کسی کو تو فائدہ پہنچایا گیا، آئین پاکستان کی پاسداری نہ کر کے وہ اس جال میں خود پھنس رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے ان کے نتائج بھی سنگین ہونگے، سپریم کورٹ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
وکیل بار کونسل صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ سابق جج نے اپنے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا ہم انکو فریق بنا رہے، شوکت عزیز صدیقی نے عمران خان سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی، مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کیلئے کسی کا نام نہیں لے سکتے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں، سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا ؟ جس پر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے، فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک امیدوار کو سائیڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے۔ جس پر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ فوج نے اپنے امیداواروں کو جیپ کا نشان دلوایا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کبھی تو ملک میں سچ سامنے آئے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ستر سال سے جو ہورہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں ؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ستر سال سے ملک میں یہی ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بار ایسوسی ایشن کے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی کا بھی نام لکھ دیں تو اسے نوٹس کر دیں، کیا شوکت صدیقی بیرسٹر صلاح الدین کا نام لکھ دیں تو آپ کو بھی نوٹس کر دیں ؟ نوٹس جاری کر کے بلاوجہ لوگوں کو تنگ بھی نہیں کرنا چاہیے، کس سیاسی جماعت کو نکالنے کیلئے یہ سب ہوا؟۔
وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ جوڈیشل سسٹم پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا ؟ کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کیلئے یہ ہوا ؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تاکہ حقائق سامنے آئیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پنشن مل سکے تو یہ 184 تین کا دائرہ کار نہیں بنتا، ہمیں نہ بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ وہ کریں، آپ معاونت کریں جو کرنا ہے ہم کریں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ مسئلہ یہ کہ عدالتی نظام کو استعمال کرنے کا الزام ہے، ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نہ آئے؟ جس پر وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ یہ الزام فیض حمید پر ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ بار کونسلز کیوں اس کیس میں آئیں ؟ جس پر وکیل صلاح الدین نے کہا کہ ہم تحقیق چاہتے ہیں کہ کیا واقعی شوکت صدیقی کی برطرفی عمران خان کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم طریقے سے چلیں گے، شوکت صدیقی کو پنشن تو سرکار ویسے بھی دے دے گی، شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے اب واپس بحال تو نہیں ہو سکتے، سسٹم میں شفافیت لا رہے ہیں 10 سال پرانے کیسز مقرر کر رہے ہیں۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ فوج کے ادارے اور سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ پر الزام لگایا گیا ہے، اس نکتے کو بھی دیکھیں کہ فوج اور ہائیکورٹ کو بدنام کرنے کی بات کی گئی ہے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ تحقیقات کے بعد سب واضح ہونا چاہیے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ماضی کی تاریخ کو دیکھنا ہوگا، 75 سال میں کس کو فائدہ پہنچایا گیا کس کو اقتدار میں لایا گیا سب دیکھنا ہوگا، پچھلے دس سالوں میں کیا ہوتا رہا اور کیا ہو رہا ہے یہ سب نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر مسئلہ صرف پنشن کا ہے تو سرکار سے پوچھ لیتے ہیں آپ کو دے دیں گے، اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں، مقصد صرف پنشن ہے تو ٹھیک ہے وہ مل جائے گی ہم کسی کو بلانے کی زحمت کیوں دیں؟۔

 

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں