اسلام آباد(آئی این پی ) سپریم کورٹ نے 90 دن میں انتخابات سے متعلق کیس کا 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ صدر اور الیکشن کمیشن کا تنازع غیر ضروری طور پر عدالت لایا گیا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں لکھا کہ آگاہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا، صدر کے خط اور الیکشن کمیشن کے موقف سے عدالت مشکل میں آگئی، آئین اور قانون میں عدالت کا الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں، صدر نے آرٹیکل 186 کے تحت عدالت سے رجوع نہیں کیا، صدر اور الیکشن کمیشن سمیت سب کو وہی کرنا چاہیے
جو آئین کی منشا ہے، آئین پر عمل کرنا کوئی آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی ادارہ دوسرے کی آئینی حدود میں مداخلت کرے تو نتائج سنگین ہوں گے، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے امور میں مداخلت نہیں کی، پورا ملک انتخابات کی تاریخ کیلئے تشویش میں مبتلا تھا جبکہ کچھ لوگوں کو خدشہ تھا شاید انتخابات ہوں گے ہی نہیں، آئین کے تحت سپریم کورٹ ایسا اختیار استعمال نہیں کر سکتی جو اسے حاصل نہ ہو، عدالت صدر اور الیکشن کمیشن کو تاریخ کے تعین میں سہولت کاری کی۔تحریری فیصلے کے مطابق آئینی عہدہ جتنا بڑا ہوگا ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی، آئین پر عمل کرنا ہر شہری کا بنیادی فرض ہے، صدر، چیف الیکشن کمشنر اور ارکان آئین کے تحت کئے گئے حلف کے پابند ہیں، آئین پاکستان کو 50 سال ہو چکے ہیں، کسی آئینی ادارے یا عہدیدار کے پاس آئین سے آشنانہ ہونے کا کوئی عذر نہیں، آج سے 15 سال پہلے 3 نومبر کو آئین پر شب خون مارا گیا تھا، آئین پر شب خون مارنے کے ہمیشہ دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں، آئین پر شب خون مارنے کی تاریخ سے سیکھنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ عدالتیں غیر ضروری ایسے تنازعات کا حصہ نہ بنیں، صدر نے اسمبلی اس وقت تحلیل کی جب وزیر اعظم عدم اعتماد کا سامنا کر رہے تھے،
آئین واضح ہے کہ عدم اعتماد کی صورت میں اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی، اسمبلی تحلیل سے تنازع سپریم کورٹ آیا اور عدالت کو اس کا فیصلہ کرنا پڑا، جسٹس مظہر عالم نے قرار دیا کہ غیر آئینی اقدامات پر آٹیکل 6 بھی لگ سکتا ہے، انہوں نے آرٹیکل 6 کے اطلاق کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑا تھا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ہر آئینی ادارہ آئین پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے، وقت آگیا ہے کہ تمام ادارے سمجھداری کا مظاہرہ کریں، عوام کا حق ہے انتخابات ہوں اور عدالت کو الیکشن یقینی بنانے کا اعزاز حاصل ہوا، انتخابات کی مقررہ تاریخ 8 فروری پر تمام فریقین متفق ہیں، صدر سے اتفاق کے بعد انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا۔فیصلے کے مطابق ایڈووکیٹ جنرلز کے مطابق کسی صوبائی حکومت کو انتخابات کی تاریخ پر اعتراض نہیں، وفاقی و صوبائی حکومتیں یقینی بنائیں انتخابی عمل 8 فروری کو بغیر رکاوٹ مکمل ہو۔سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 19 کے تحت میڈیا کے کردار کا اعتراف کرتی ہے، بعض اس آزادی کو عوام کو غلط معلومات دینا اور جھوٹا بیانیہ بنانے کا لائسنس سمجھتے ہیں، جو جمہوریت کو نیچا دکھانا ہے، پیمرا قانون ایسے مندرجات سے روکتا ہے جو لوگوں کو اکسائے اور حکومت کو آئین کے برخلاف ہٹایا جائے، پیمرا کا قانون جمہوریت کے فروغ کیلئے فیئر اظہار کی اجازت دیتا ہے، سپریم کورٹ ان صحافیوں کو سراہتی ہے جو دیانتداری سے پیشہ ورانہ ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں