لندن(آئی این پی)نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ الیکشن چیئرمین پی ٹی آئی یا جیل کاٹنے والے سیکڑوں کارکنوں کے بغیر بھی ہوسکتے ہیں، جیل کاٹنے والے پی ٹی آئی ارکان توڑ پھوڑ اور جلا ئوگھیرا ئوکی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے، پی ٹی آئی میں شامل ہزاروں افراد جو غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے، میں چیئرمین پی ٹی آئی سمیت کسی سیاست دان سے ذاتی انتقام پر عمل پیرا نہیں، اگر کوئی قانون شکنی پر گرفت میں آیا ہے تو قانون کی بالادستی یقینی بنائیں گے، انتخابات فوج یا نگران حکومت نے نہیں الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں،
امید ہے عام انتخابات نئے سال میں ہوں گے، پی ٹی آئی کو جیتنے سے روکنے کے لئے انتخابات میں فوج کی جانب سے دھاندلی کی بات بیہودہ ہے، امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہچیف الیکشن کمشنر کا تقرر چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم کیا تھا، چیف الیکشن کمشنر چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کیوں ہوں گے۔انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاست دان کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی پر قانون کی بحالی یقینی بنائی جائے گی، الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی وفاقی حکومت ہر طرح کا تعاون کرے گی، عدلیہ کے فیصلوں میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کروں گا، عدلیہ کو کسی بھی سیاسی مقصد کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فوج سے قریبی تعلق کی بات سیاست کا حصہ ہے، اس پر توجہ نہیں دیتا، فوج اور وفاقی حکومت کے درمیان تعلق بہت ہموار، کھلا اور شفاف ہے، ہمیں سول ملٹری تعلقات کے چیلنج کا سامنا رہتا ہے جس سے انکار نہیں، سول ملٹری تعلقات کے چیلنجز کی مختلف وجوہات ہیں، کئی دہائیوں کے دوران سول اداروں کی کارکردگی خراب ہوئی ہے، اس کا حل سویلین اداروں کی کارکردگی کو بتدریج بہتر بنانا ہے۔انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 9لاکھ فوجی تعینات کررکھے ہیں، کشمیری بھارت کی بنائی ہوئی بڑی جیل میں رہ رہے ہیں، کشمیریوں کے پاس کوئی سیاسی حق نہیں ہے، دنیا کی توجہ یوکرین پر ہے لیکن ایک تنازع کشمیر بھی ہے، کشمیر اگر یورپ یا امریکا میں ہوتا تو کیا تب بھی اس کے حل کے لئے ایسا ہی بے حس رویہ ہوتا؟ اس تنازع کے اہم کردار کشمیری عوام ہیں، کشمیری عوام کو اپنی شناخت و مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔نگران وزیراعظم نے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ اس طرف سے کچھ سنگین سکیورٹی مسائل ہیں، کابل میں طالبان حکام سے رابطے میں ہیں لیکن ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، علاقائی رہنما طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں، علاقائی فورم کو متفقہ نقطہ نظر اور وسیع تر اتفاق رائے قائم کرکے طالبان تک پہنچانا چاہئے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں