اسلام آباد (پی این آئی) سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل نے الیکشن ازخود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا،فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے متعلق فیصلہ چار تین تناسب سے دیا گیا،جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کو ان کی مرضی کے بغیر بنچ سے نکال دیا، چیف جسٹس کے ”ون مین پاورشو“ پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل نے الیکشن ازخود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن ازخود نوٹس کو چار ججز نے مسترد کیا،ازخود نوٹس کیس کی کاروائی ختم کی جاتی ہے، چیف جسٹس کے ”ون مین پاورشو“ پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔ سپریم کورٹ کسی ایک شخص کے فیصلوں پر انحصار نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ کو مضبوط کرنے کا وقت آگیا ہے، ہمیں چاہیئے کہ اختیارات پر نظر ثانی کریں۔ فیصلے میں بتایا گیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے متعلق فیصلہ چار تین تناسب سے دیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ پانامہ کیس کے پہلے راؤنڈ تین دو کا فیصلہ آیا۔ تین دو کے فیصلے کے بعد تین رکنی بنچ نے فیصلے کی کاروائی کو آگے بڑھایا۔ جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کو ان کی مرضی کے بغیر بنچ سے نکال دیا، چیف جسٹس کو کسی بھی جج کو بنچ سے نکالنے کا اختیار نہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔الیکشن کمیشن حکام، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور درخواست گزرا کے وکیل علی ظفر عدالت میں موجود تھے۔دورانِ سماعت پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ کو انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ دیا۔ الیکشن کمیشن نے 8 مارچ کو پنجاب میں انتخاب کا شیڈول جاری کیا۔گورنر کے پی نے عدالتی حکم کی عدولی کرتے ہوئے تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔الیکشن کمیشن نے صدر کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے نیا شیڈول جاری کیا،الیکشن کمیشن نے تین بار خلاف ورزیاں کیں۔الیکشن کمیشن نے صدرِ مملکت کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے نیا شیڈول جاری کیا۔سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ آنے سے پہلے ہائیکورٹ سے رجوع کیوں نہ کیا۔ انتخابات سے متعلق کیس ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا۔انہوں نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ اس کیس کو سن بھی سکتی ہے یا نہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا اس لیے عدالت اس کیس کو سن سکتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کا جو فیصلہ تھا اس پر تو تمام ججز کے دستخط نہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ میرے خیال میں معزز جج جمال خان صاحب عدالتی فیصلے پر دستخط نہ ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی حکم کی سمری پر ججز کے دستخط ہیں،سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کو بدل سکتا ہے۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو بدل دیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود نہیں جن میں اس طرح الیکشن کی تاریخ تبدیل کی گئی ہو،ہم نے دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس صدر کی دی گئی تاریخ کو بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟۔ جس وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عملدرآمد کرائے۔فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے۔پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ دو صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائی کورٹ نہیں سن سکتی۔سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرکے فیصلہ کر چکی ہے۔سپریم کورٹ کا اختیار ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مانتے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی گئی لیکن کیا ایسی توسیع کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف کل تک ملتوی کر دی گئی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں