اسلام آباد (پی این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے کی، فیصلہ کل 11 بجے سے پہلے سنایا جائے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران وکلاء کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ تمام وکلاء کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے عدالت کی معاونت کی۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔یاد رہے سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پنجاب اور خیبر پختوانخوا میں انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔اس سے قبل عدالت کی جانب سے وقت دینے کے باوجود پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں میں الیکشن کے لیے تاریخ پر فریقین میں اتفاق نہ ہو سکا۔ فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے۔ انہوں نے بتایا یہ سیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ نہیں کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں۔میں نے اپنی قیادت سے بات کی ہے، پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ تاریخ دینا سیاسی جماعت کا مینڈیٹ نہیں۔ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرنی ہے، وقت دیا جائے۔ مناسب ہوگا عدالت کیس عدالت میں بڑھائے۔
عدالت کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔قبل ازیں سپریم کورٹ نے صوبوں میں الیکشن کی تاریخ کیلئے سیاسی جماعتوں کو مشاورت کا وقت دیا۔ چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں، صدر کے صوابدیدی اورایڈوائس پراستعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔سپریم کورٹ کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ہی 90 روز کا وقت شروع ہوجاتا ہے، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نگران وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے؟ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدرعابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ ہوتا ہے، الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے نگران وزیر اعلی کا نہیں، سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں، الیکشن کی تاریخ اور نگران سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ ہوتا ہے، الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے نگران وزیر اعلی کا نہیں، اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی زمہ داری پوری نہیں کررہی؟ 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں، اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائے گا۔ عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت نے مشاورت کےلئے خط لکھے ہیں جس پرجسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟ آئین میں توکہیں مشاورت کا ذکر نہیں، نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔
جسٹس جمال نے ریمارکس میں کہا کہ صدر کے اختیارات برارہ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں توپھر قانون کے تحت اقدام ہوگا، اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ گورنر تاریخ نہیں دے رہا صدر بھی ایڈوائس کا پابند ہے تو الیکشن کیسے ہوگا؟ کیا وزیر اعظم ایڈوائس نہ دے تو صدر الیکشن ایکٹ کے تحت اختیار استعمال نہیں کرسکتا؟ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار تفویض کیا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں، گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا، الیکشنز کو 90 روز سے آگے نہیں لیکر جانا چاہیے، اگر انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہوگا؟ سال 2018 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا۔جسٹس منیب اخترنے استفسار کیا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جاسکتا؟ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون؟ الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی، اگر قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کردیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن کا کام تھا مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا، گورنر خیبرپختونخواہ کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کرکے تاریخ کا تعین کیا جائے، کیا گورنر کے پی سے تاریخ کےلئے بات ہوئی ہے؟۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے گورنر سے ملاقات کی۔
گورنر کے پی کو یاد دہانی کا خط بھی لکھا تھا، گورنر کے پی نے مشاورت کے لیے تاریخ نہیں دی اوردیگر اداروں سے رجوع کرنے کو کہا، وکیل گورنر کے پی نے کہا کہ گورنر نے اسمبلی وزیراعلی کی ایڈوائس پر تحلیل کی، گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ دینے کا مجاز ہے، الیکشن کمیشن نے تین فروری کو گورنر کو صوبائی حکومت سے رجوع کا کہا، خط میں الیکشن کمیشن نے اپنی مشکلات کا بھی ذکر کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ نظام کو آئین کے تحت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، انتخابات کروانا لازم ہے، اولین ترجیح آئین کے تحت چلنا ہے، الیکشن کی تاریخ کے بعد رکاوٹیں دور کی جاسکتی ہیں، اگر کوئی بڑا مسئلہ ہو تو آپ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں، کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ٹھوس وجوہات کا جائزہ لیکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے، آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے، مگر لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو، الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا، حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے، آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے، اگر 90 روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کردے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں