اسلام آباد (پی این آئی) الیکشن کمیشن عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کل 2 بجے سنائے گا، عمران خان سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے گئے، الیکشن کمیشن نے19 ستمبر کو دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ دنیا نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان چیئرمین پی ٹی آئی سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کل سنائے گا، اس سلسلے میں عمران خان سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے گئے، الیکشن کمیشن نے19 ستمبر کو دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔یاد رہے رواں سال 19 ستمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5رکنی بنچ نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کی، اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل خالد اسحاق اور تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر پیش ہوئے۔سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحٰق نے مؤقف اپنایا کہ ریفرنس میں سوال عمران خان کی جانب سے تحائف ظاہر نہ کرنے کا تھا، عمران خان نے جواب میں تحائف کا حصول تسلیم کیا ہے، عمران خان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ تحائف گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے۔ خالد اسحٰق ایڈوکیٹ نے کہا کہ جواب میں کہا گیا کسی نے بھی روزمرہ ضرورت کی چیزیں ظاہر نہیں کیں، عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ تسبیح اور ٹائی تو میں نے بھی ظاہر نہیں کی ہوئی، مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ کمیشن میں کیس عمران خان کا ہے کسی اور رکن اسمبلی کا نہیںخالد اسحٰق کا کہنا تھا کہ ظاہر نہ کیے گئے ایک کف لنک کی قیمت 57 لاکھ روپے ہے، جواب میں دوسری دلیل یہ دی گئی کہ کچھ تحائف مالی سال کے دوران ہی فروخت کردیے، عمران خان کے بقول فروخت کیے گئے تحفے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیںرکن الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا اکرام اللہ نے کہا کہ تحائف خرید کر فروخت کرنے اور ظاہر نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے بقول ایف بی آر گوشواروں میں فروخت شدہ تحائف کی آمدن ظاہر کی ہے، الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے گوشوارے الگ الگ ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے بقول الیکشن کمیشن مقدمہ سننے کا مجاز ہی نہیں ہے، ننکانہ صاحب کی نشست پر ضمنی انتخابات کے دوران بھی توشہ خانہ تحائف کا اعتراض اٹھا، ریٹرننگ افسر کو جواب میں عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن مجاز فورم ہے۔خالد اسحٰق نے کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہل الیکشن کمیشن ہی کرسکتا ہے، ذاتی استعمال کی اشیا ظاہر کرنا ارکان اسمبلی کے لیے ضروری ہے، کیا 50 لاکھ کی گھڑی ذاتی استعمال کی چیز نہیں ہے اعتراض کیا گیا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے چار ماہ بعد کسی کو نااہل نہیں کرسکتا ہے جس پرممبر کمیشن سندھ نثار درانی نے کہا کہ ممکن ہے اثاثے ظاہر کرنے میں غلطی ہوگئی ہو، غلطی سے اثاثے ظاہر نہ ہوں تو نااہلی نہیں ہوتی جس پردرخواست گزار کے وکیل خالد اسحٰق نے کہا کہ اگر غلطی ہوئی ہے تو تسلیم کریں، ایک اعتراض عمران خان نے 62 (ون) (ایف) لگانے کے اختیار پر کیا ہے اور فیصل واڈا کیس میں کمیشن نے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کا اطلاق کیا اس موقع پرمسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحاق نے دوران دلائل پانامہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانامہ نظرثانی کیس میں اعتراض کیا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ٹرائل کے بغیر نہیں ہوسکتا، عدالت نے کہا نوازشریف نے تنخواہ مقرر ہونے سے انکار نہیں کیا تھا۔
خالد اسحاق نے کہا کہ عدالت نے کہا اگر حقائق متنازع نہ ہوں تو ٹرائل کی ضرورت نہیں، عمران خان حلفیہ بیان پر جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحاق کے دلائل مکمل ہوگئے۔عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے قرار دیا ان کے پاس عمران خان کی نااہلی کیلئے ٹھوس مواد موجود ہے، اسپیکر نے ریفرنس میں عمران خان کے 2017 اور 2018 کے گوشواروں کا حوالہ دیا، آرٹیکل 62 ون ایف کے لیے عدالت کی ڈیکلریشن لازمی ہے۔علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر کے پاس فیصلہ کرتے وقت کوئی عدالتی ڈیکلریشن موجود نہیں تھا، اسپیکر آرٹیکل 62 ون ایف کا ریفرنس بھیجنے کا اہل ہی نہیں ہے، یہ ایک سیاسی کیس ہے، ثابت کروں گا جو تحائف ظاہر کرنا ضروری تھے وہ کیے گئے ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا فیصلہ کرنا عدالتوں کا اختیار ہے، کیا کسی عدالت نے ثابت کیا کہ عمران خان صادق اور امین نہیں، الیکشن کمیشن عدالت نہیں بلکہ کمیشن ہے، جب تک ہائی کورٹ کی نگرانی نہ ہو تو کوئی ادارہ عدالت نہیں بن جاتا۔
انہوں نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن خود کو عدالت قرار نہیں دے سکتا، الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ ارکان کی ایمانداری کا تعین کرسکے، سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں جس پر کمیشن کے رکن خیبر پختونخوا نے کہا آپ کے مطابق کوئی بے ایمان ہو بھی تو کمیشن اس کی انکوائری کر نہیں سکتا ، ممبر پنجاب نے کہا کہ کمیشن اگر کچھ کر نہیں سکتا تو اسپیکر کے ریفرنس بھیجنے کی شق کیوں ڈالی گئی ہے تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 (1) کے تحت کوئی رکن سزا یافتہ ہو تو سپیکر نااہلی کا ریفرنس بھیجتا ہے، عمران خان کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ ہے نہ ہی وہ سزا یافتہ ہیں۔مسلم لیگ (ن) ! کے وکیل خالد اسحٰق نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے تحائف وصول کرنے اور فروخت کرنے کو تسلیم کیا، تحائف کس تاریخ کو اور کتنے کے فروخت کیے نہیں بتایا گیا، عمران خان نے اپنے لندن فلیٹ کی رسیدیں دی تھیں لیکن تحائف فروخت کی نہیں دیں، ایک اکاؤنٹ میں موجود 5 کروڑ روپے کو فروخت شدہ تحائف کی رقم ظاہر کیا گیا۔ اس موقع پر کمیشن کے ممبر خٰیبر پختونخوا نے کہا کہ ریفرنس میں آرٹیکل 63 کا ذکر ہے، کیا اس کے تحت اثاثے چھپانے پر نااہلی ہوسکتی ہے اس دوران خالد اسحٰق نے جواب الجواب مکمل کرلیا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیرمین عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادائیگی کر کے خریدے ہیں اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے اگست کے اوائل میں توشہ خانہ کیس کی روشنی میں عمران خان کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن کو ایک ریفرنس بھیجا تھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں