کراچی (آئی این پی)وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ دنیا سے قرض مانگنا مشکل ہو گیا ہے اور اب شرم بھی آتی ہے ، آرمی چیف سے فون کروانا پڑتا ہے،لگژری گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کو ستمبر تک نہیں ہٹائیں گے، ملک میں ایل سی کا نظام بہتر ہے، تمام امپورٹرز کے لیے ایل سی کھل رہی ہیں،الر کم ہیں اور ضرورت زیادہ ہے لیکن تین ماہ کی تکلیف ہے،فارمولے کو سمجھنے کے لیے اکنامسٹ ہونے کے بجائے میمن بننا پڑے گا، ایکسچینج کمپنیوں کے بغیر پاکستان چلانا بہت مشکل ہوجائے گا، دکانداروں پر فکسڈ سیلز ٹیکس لگانے کا فیصلہ میری غلطی تھی۔
ہفتہ کو کراچی چیمبر آف کامرس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک دوست ملک سے سنہ 1996 میں لیا گیا 45 کروڑ ڈالر کا قرض اب تک واپس نہیں کر سکے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ لگژری گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کو ستمبر تک نہیں ہٹائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ایل سی کا نظام بہتر ہے، تمام امپورٹرز کے لیے ایل سی کھل رہی ہیں۔ہماری ایکسپورٹ 2011 میں 25 ارب ڈالر تھی آج 30 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کی ایکسپورٹ بنگلہ دیش اور کوریا سے بھی کم ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بجلی کی پیداوار میں بتدریج اضافہ ہوا مگر بزنس کمیونٹی ایکسپورٹ نہیں بڑھا سکی۔
ملک میں ڈالر کے اتار چڑھا کے حوالے سے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ڈالر کم ہیں اور ضرورت زیادہ ہے لیکن تین ماہ کی تکلیف ہے۔فارمولے کو سمجھنے کے لیے اکنامسٹ ہونے کے بجائے میمن بننا پڑے گا۔انہوں نے ایکسچینج کمپنیوں پر پابندی کا مطالبہ غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بغیر پاکستان چلانا بہت مشکل ہوجائے گا۔سٹیٹ بینک نے ڈالر کی سٹے بازی میں منی چینجرز کو فوکس کیا ہے۔ کچھ چھوٹے بینکوں نے ڈالر کی سٹے بازی میں پرافٹ ٹیکنگ کی ہے۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ دکانداروں پر فکسڈ سیلز ٹیکس لگانے کا فیصلہ میری غلطی تھی۔یہ سوچا تھا تین ہزار روپے تو ایک دکاندار دے سکتا ہے،
لیکن جو گلی میں دوکان ہے وہ تین ہزار روپے کیسے دے گا؟انہوں نے کہا کہ اب کوشش ہو گی کہ ہر دکان دار ٹیکس نیٹ کے دائرہ کار میں آئے۔مفتاح اسماعیل کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ یہ ٹیکس اپنے ملک کے لیے جمع کرنا ہے۔ رواں مالی سال پاکستان کو چار ہزار ارب روپے سود ادا کرنا ہے، اس کے لیے ٹیکس محاصل بڑھانے ہوں گے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں