اسلام آباد(آئی این پی)قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اعلان کیا ہے کہ وفاق کی علامت اسلام آباد پر حملہ پاکستان کی سلامتی کے اوپر حملہ تصور ہوگا اور پوری طاقت سے اس کا مقابلہ کیا جائے گا، کسی کے ذاتی اقتدار،اور انا کے لئے ہم پاکستان کو بلیک میل ہونے نہیں دینگے، کوئی بندہ غلط فہمی میں نہ رہے، ”اقتدار کیا چھن گیا رولا ہی پے گیا“،
آج سیاست اصولوں کی نہیں رہی بلکہ اقتدار کی سیاست ہو گئی ہے،مخالفت برائے مخالفت نے پاکستان کی سیاست کو گٹر میں بھیج دیا ہے،جب نواز شریف دس ہزار بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا تو وہ پچ پر نہیں لیٹ گیا تھا اور نہ ہی وکٹیں اکھاڑیں،جو لوگ حملہ آور ہیں ان میں آپس میں بھی نفاق ہے، ان میں سے بہت سے لوگوں نے استعفے نہیں دیئے،ان سے کہتا ہوں ایوان میں آئیں اور کھڑے ہو کر کہیں کہ میں استعفیٰ دیتا ہوں مگر وہ ایسا نہیں کرتے، اور کہتے ہیں کہ ہم واپس آجاتے ہیں مگر اپوزیشن لیڈر ہمارا بنا دو اور دھرنے سے متعلق بھی بات کر لیں گے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا جاتا وقت سب کچھ بتا دے گا۔منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ حریت رہنماء یاسین ملک کی ایک لمبی جدوجہد ہے۔ جتنی لمبی انہوں نے قید کاٹی ہے، سوچ کر بھی دکھ ہوتا ہے۔ کشمیر سے متعلق ہماری جدوجہد اس موڑ پر پہنچی ہے ماسوائے سرینہ چوک پر ایک گھڑی کے علاوہ سابق حکومت نے کشمیر کے معاملے پرکچھ نہیں کیا۔ بھارت نے کشمیریوں کے تمام حقوق روند ڈالے جب کہ ہمارے سابق وزیر اعظم دعا مانگتے رہے کہ مودی دوبارہ اقتدار میں آئے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بحیثیت قوم صرف مذمت تک محدود نہیں رہنا چاہیے کشمیریوں کو ہم سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ مذمت تو پوری مسلمہ امہ کرتی ہے، پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتا ہے صرف مذمت پر اکتفاء کریں تو یہ شرمندگی کا باعث ہے۔
کشمیریوں کی قربانیوں کے ہم مقروض ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب کوئی سیاسی ورکر دہشتگردی کی زبان بولتا ہے تو سیاست کی نفی کرتا ہے۔ سیاست دان سیاسی ورکر ایسی زبان استعمال نہیں کرتا کہ گرا دو جلا دو، مار دو، خونی مارچ آرہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ نوے کی دہائی میں ہمارا پیپلز پارٹی کا سیاسی تناؤ رہا مگر ہم نے جلا دو گرا دو جیسی زبان استعمال نہیں کی اور نہ ہی ہم نے اسلحہ گولی یا خونی مارچ کی زبان استعمال کی۔خواجہ آصف نے کہا کہ اسلام آباد کی طرف مسلح جتھے آرہے ہیں مگر اسلام آباد کی حفاظت کے لئے معمور فورسز کے پاس ویسا اسلحہ نہیں ہے اگر نئی نسل کا سیاسی ورکر اس طرح کی بات کرے تو درگزر کی جا سکتی ہے مگر ہمارے پنڈی سے ایک ایم این اے اس طرح کی بات کریں تو پھر دکھ ہوتا ہے۔ ہماری سیاست کلچر زوال پذیر ہے۔ موجودہ سیاسی کلچر مار دھاڑ کی ایک شکل ہے۔ ماضی میں جب بھی احتجاج یا مارچ ہوتے رہے ہیں تو اس طرح کی گرفتاریاں ہوتی رہیں ہیں۔
مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ گزشتہ چارسال میں اپوزیشن کی مرکزی قیادت تمام کی تمام جیل میں تھی تو اس وقت کسی کا ضمیر کیوں نہیں جاگا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اس وقت کسی کو ضمیر کی جوبن کیوں محسوس نہیں ہوئی یہ اصل میں زوال ہے سیاسی قدروں کا کہ جو بات آپ کو سیاسی طور پرسوٹ کرتی ہے آپ صرف وہ کہیں انسان کو صرف اصول کی بات کرنی چاہیے جہاں سیاسی ورکر ہونگے مار دھاڑ کی تیاری اور پلان بن رہے ہونگے تو وہاں ایکشن ہوگا۔ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اجازت ہے اس بات کی کہ آپ ضرور احتجاج کرینگے آئین و قانون آپ کو اس کا حق دیتا ہے مگر ایک آئینی حکومت کو ہٹانے کے لئے دھرنے یا حملے نہ کریں یا حملوں کی ترغیب نہ دیں۔ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں آئے ان کے ساتھ ہزاروں لوگ آئے، انہوں نے اپنا احتجاج کیا اور واپس چلے گئے ایک گملہ نہیں ٹوٹا۔ ہمارے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ خواجہ آصف نے کہا ”اقتدار کیا چھن گیا رولا ہی پے گیا“ ہم سے اور پیپلز پارٹی والوں کتنی بار اقتدار چھینا گیا ہے اور جب بھی اقتدار چھینا گیا ہم سے قید میں چلے گئے ہم نے نومبر 2007 میں اس ایوان سے استعفے دیئے تو دوسرے دن پکڑے گئے۔مجھے جیل بھیج دیا گیا اور ایک مہینے بعد وہاں سے رہا ہوا۔ ہماری سیاسی جدوجہد پر سرمایہ کاری ہے ہم نے اپنی آزادی سیاسی جدوجہد میں انویسٹ کی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج سیاست اصولوں کی نہیں رہی بلکہ اقتدار کی سیاست ہو گئی ہے۔ گزشتہ حکومت کو ہٹانے کے لئے ہم نے آئینی راستہ چنا اور وزیر اعظم کو ہٹایا۔ ہمارے خلاف سارے غیر آئینی اقدامات اٹھائے گئے مگر پاکستان کی عدلیہ نے ہمیں ریلیف دیا۔ جب میرا قائد نواز شریف گرفتار ہو گیا اور اس پر دس ہزار بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کر دیا تو نواز شریف پچ پر نہیں لیٹ گیا تھا اور نہ ہی وکٹیں اکھاڑیں۔ نواز شریف نے کوئی خونی مارچ نہیں کیا تھا اور نہ اسلحہ دیکر اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا کہا تھا۔نواز شریف کو قانون سوٹ کرتا تھا یا نہیں مگر اس نے سر تسلیم خم کیا۔ اور بیٹی کے ساتھ پابند سلاسل ہو گیا۔ یہ ہوتی ہے قانون کے آگے سرنگوں ہونا۔ ایک وقت تھا جب شہباز شریف، حمزہ شہباز اور میں قید تھے اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ میں تمہارے دن بدل دونگا ایک ہی جگہ ہم تینوں کی ساتھ ساتھ بیرکیں تھی۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ آج ایک وزیر اعظم اور دوسرا وزیر اعلیٰ ہو گا۔ میں تو یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ میں رہاہو کر دوبارہ اس اسمبلی میں بات بھی کرونگا۔ وزیر اعظم نے میرے سے متعلق سپرینڈینٹ جیل کو واضح ہدایات دی ہوئی تھی کہ اس کو کوئی سہولت میسر نہیں ہونی چاہیے۔ 22 جنوری کو 4 ڈگری درجہ حرارت تھا تو سپر نٹنڈینٹ جیل نے مجھے دو کمبل دیئے ا ور کہا کہ ایک نیچے بھچا لو اور ایک اوپر لے لو۔ آدھی رات کو شبہاز شریف نے گرم پانی کی بوتل میرے لئے بھیجی مگر کسی نے مذمت نہیں میں آج بھی نواز شریف کا ورکر ہوں سیاسی وفاداری تبدیل نہیں کی۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ہم پاکستان کی ریاست کو بلیک میل نہیں ہونے دینگے۔ کسی کے ذاتی اقتدار،اور انا کے لئے ہم پاکستان کو بلیک میل ہونے نہیں دینگے ہم گالم گلوچ اور تشدد کی زبان نہیں جانتے لیکن اگر ریاست کو چیلنج کیا گیا تو ریاست کا آئینی مزاج ضرور ایکشن میں آئیگا۔ کوئی بندہ غلط فہمی میں نہ رہے اگر اسلام آباد جو وفاق کی علامت ہے پر مسلح جتھے آئے تو یہ پاکستان کی سلامتی کے اوپر حملہ ہوگا اور پوری طاقت سے اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔ شبہاز شریف جب اپوزیشن میں تھا تو کہتا تھا کہ ہم سیاستدانوں کی جب بھی عزت پامال ہوتی ہے سیاستدانوں کے ہاتھوں ہوتی ہے ایسے سیاستدان جو اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں اور سیلیکٹو مذمت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پامال ہوتی ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جو لوگ حملہ آور ہیں ان میں آپس میں بھی نفاق ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے استعفے نہیں دیئے،ان سے کہتا ہوں ایوان میں آئیں اور کھڑے ہو کر کہیں کہ میں استعفیٰ دیتا ہوں مگر وہ ایسا نہیں کرتے۔ اور کہتے ہیں کہ ہم واپس آجاتے ہیں مگر اپوزیشن لیڈر ہمارا بنا دو اور دھرنے سے متعلق بھی بات کر لیں گے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا جاتا وقت سب کچھ بتا دے گا۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں