اسلام آباد(پی این آئی)وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے درمیان پاور شیئرنگ فارمولا طے پا گیا ہے۔مسلم لیگ ن 14، پیپلز پارٹی 12 اور دیگر اتحادیوں کو حصہ بقدر جثہ وزارتیں ملیں گی۔مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ حکمران اتحاد کی قیادت میں باہمی مشاورت سے وزارتوں کی تقسیم کا فارمولہ طے پا گیا ہے۔فارمولا کے تحت وفاق میں وزارت خزانہ، داخلہ، اطلاعات، منصوبہ بندی، توانائی اور پارلیمانی امور مسلم لیگ ن کو ملیں گی جبکہ وزارت خارجہ پیپلز پارٹی اور وزارت اوورسیز پاکستانیز، بحری امور ایم کیو ایم کے حصے میں آئیں گی۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ طے پا گیا ہے کہ کون سی وزارت کس جماعت کو دی جائے گی تاہم اس کے لیے کس کو نامزد کرنا ہے یہ سیاسی جماعتوں کی صوابدید ہے۔ وہ نام فائنل کرنے کے بعد وزیراعظم کو بھجوا دیں گے۔‘رانا ثنا اللہ کے مطابق سپیکر کے بعد چیئرمین سینیٹ بھی پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے گی۔ یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بنائے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔تاہم صدر کے حوالے سے فیصلہ صدر کی نشست خالی ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ گورنر پنجاب ن لیگ، گورنر سندھ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی، کے پی اور بلوچستان ن لیگ اور جے یو آئی کی مشاورت سے تعینات کیے جائیں گے۔دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ کابینہ ارکان مختلف مراحل میں حلف اٹھائیں گے۔ سوموار کو پہلے مرحلے میں 12 وزرا کے حلف اٹھانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق حکمران اتحاد کے مرتضی جاوید عباسی کو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی بنانے کا امکان ہے۔ تاہم جے یو آئی کی خاتون رکن اسمبلی شاہدہ اختر علی بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ حنا ربانی کھر وزیر مملکت برائے خارجہ امور، شازیہ مری یا مصطفی نواز کھوکھو کو وزارت انسانی حقوق کا قلمدان دیے جانے کا امکان ہے۔خواجہ آصف وزیر تجارت، مفتاح اسماعیل مشیر خزانہ اور مریم اورنگزیب کو وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان دیے جانے کا امکان ہے۔رانا تنویر کو وزارت پارلیمانی امور اور رانا ثانا اللہ کو وفاقی وزارت داخلہ کا قلمدان دیے جانے کا امکان ہے۔شاہد خاقان عباسی کی کسی وزارت کا قلمدان لینے سے معذرت کی ہے تاہم رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم چاہیں گے تو انھیں کابینہ میں شامل کر لیا جائے گا۔
11 اپریل کو وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف نے اسی شام اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ان کی کابینہ بھی فوری حلف برداری کے لیے تیار ہوگی۔ لیکن چھ دن گزر جانے کے باوجود کابینہ تشکیل نہ پا سکی تو سوشل میڈیا پر سوالات اٹھائے جانے لگے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وفاقی حکومت سے مراد کابینہ ہے تو عملی طور اس وقت پاکستان میں حکومت موجود نہیں ہے جبکہ وفاقی بیوروکریسی میں تقرر و تبادلوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اس حوالے سے اطلاعات تھیں کہ پیپلز پارٹی جو پہلے کابینہ کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھی تاہم بدلتی صورتحال میں انھیں کابینہ کا حصہ بننے پر رضا مند کیا گیا، اس وجہ سے کچھ تاخیر ہوئی۔ایک اطلاع یہ بھی تھی کہ پیپلز پارٹی کابینہ میں شمولیت کے بدلے پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے ن لیگ سے کچھ نشستیں مانگ رہی ہے۔پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے اردو نیوز سے گفتگو میں ایسی خبروں کہ تردید کی اور کہا کہ ایک دو دن میں کابینہ تشکیل پا جائے گی۔
حکومتی اتحادی جے یو آئی کے ترجمان اسلم غوری کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے اپنی جماعت کو بری الزمہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سابق حکومت کو ہٹانے کے لیے تحریک میں ڈرائیونگ سیٹ ہمارے پاس تھی اب یہ ڈرائیونگ سیٹ پر شہباز شریف ہیں۔ وہ جب مناسب سمجھیں گے کابینہ تشکیل دے لیں گے۔اس حوالے سے ن لیگ کی ترجمان سمیت دیگر رہنماؤں سے رابطہ کیا گیا لیکن وہ کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی کوئی وجہ بتانے کے لیے دستیاب نہیں ہوئے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں