اسلام آباد(آئی این پی)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور صدر سمیت جو کوئی بھی آج ہونے والے عمل میں ملوث ہے، اس نے غداری کی ہے، ہمارے آئین میں ایسی کوئی گنجائش موجود ہی نہیں جس کی بنیاد پر وہ اسمبلی توڑسکیں، اسمبلی توڑنے کا نوٹیفکیشن اس وقت جاری کریں جب ہم نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر رکھی ہو۔
آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرائیں۔ ملک کے آئین، قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط، جمہوریت اور قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں جو انہیں آج کے اجلاس سے بھاگ جانے کی اجازت دیتی ہو۔ ہم نے پارلیمنٹ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ ہم نے سپریم کورٹ سمیت ان تمام اداروں سے مطالبہ کیا ہے جو آئین کے تحفظ اور نفاظ کے ذمہ دار ہیں کہ وہ اپنی ذمیداری ادا کریں اور ہماری تحریک عدم اعتماد کو قبول کریں جو کہ قانونی ہے اتوار کو نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ایاز صادق کو چیئر پینل میں شامل رکھنے کا حکومت کا اپنا فیصلہ تھا۔ ایوان کی پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کی ہے۔ جب سپیکر موجود نہ ہو، نہ ہی ڈپٹی سپیکر، تو یہ پینل میں شامل رکن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اجلاس چلائے۔
عدم اعتماد کا ووٹ ہوا اور ہم نے 195 ووٹ حاصل کیے۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری عدلیہ کوئی غیر آئینی کام ہونے نہیں دے گی، پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ جب آئین پر اس طرح کا سنگین حملہ ہوا ہے، تو ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس کی تصیح کرے گی۔ عدم اعتماد سے بھاگنے کے لیے وزیراعظم نے آئین سے غداری کی ہے۔ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ایوان میں اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ ہم پاکستان کو جنگل کے قانون پر چلانے نہیں دیں گے۔ وزیر اعظم اور سپیکر کو پتا ہی نہیں ہے کہ انہوں نے یہ کتنا سنگین قدم اٹھایا ہے۔ میاں رضا ربانی، فاروق ایچ نائیک، نیئر حسین بخاری دیگر ماہرین سے مل کر پٹیشن تیار کر رہے ہیں۔ اپوزیشن الیکشن کے لیے تیار ہے۔ سپریم کورٹ کے لیئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑی نہ ہو۔ وہ پابند ہے کہ وہ آئین کے ساتھ کھڑی ہو اور اس کا دفاع کرے۔ ہم نے سپیکر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرا رکھی ہے جس کے بعد وہ اجلاس ملتوی بھی نہیں کر سکتا۔ اب ہمارا مؤقف یہ ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور عمران خان اب پاکستان کے وزیر اعظم نہیں رہے۔ عمران خان خود کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی فوٹو کاپی بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جو کہ مضحکہ خیز ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے تو کبھی آئین کی خلاف وزرزی نہیں کی۔
ہم تو وہ ہیں، جنہوں نے اس آئین کو ڈرافٹ کیا تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے تو اپنی جان بچانے کے لیے بھی آئین کو منسوخ نہیں کیا۔ انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ وہ قومی راز فاش نہیں کریں گے، خواہ اس کی وجہ سے ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ یہ ہوتی ہے قوم پرستی اور حب الوطنی۔ عمران خان سے آرٹیکل 6 کے مطابق نمٹا جائے گا۔ متحدہ اپوزیشن کی تعداد نہ صرف عدم اعتماد کی کامیابی بلکہ وزیراعظم کے لیے بھی پوری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان آئین اور جمہوریت کے مطابق ہار چکا ہے۔ کیا پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ ملکی معاملات آئین کے مطابق چلیں یا فردِ واحد کی انا کے مطابق؟ پاکستان آج دنیا کے سامنے بنانا ریپبلک بن گیا ہے۔ ہم عمران کو یہ سازش کامیاب بنا نے نہیں دیں گے۔ یہ عمران کی مایوسی مشرف کی مایوسی جیسی ہے کہ وہ امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے سے بچ جائے گا۔ جسٹس وقار سیٹھ نے تو اپنے حکم نامے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ غداروں کی سزا کیا ہوتی ہے۔ صدر نے آج آئین کو منسوخ کرنے کی کوشش کی۔ جہاں تک غیر ملکی سازش کا معاملہ ہے، تو یہاں سب گواہ ہیں کہ اس غیر جمہوری شخص کو ہٹانے کے لیے ہماری کوششیں ہمیشہ کیا رہی ہیں۔
وزیراعظم کے روس جانے سے بہت پہلے میں اور میرے والد اتفاق رائے کے لیے شہباز شریف کے پاس گئے۔ اس سے پہلے بھی ہماری سی ای سی میٹنگ ہوئی تھی، جہاں لانگ مارچ اور عدم اعتماد پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ اس سے بھی پہلے، ستمبر 2020 میں جب ہم نے PDM کی بنیاد رکھ رہے تھے، عدم اعتماد اس کے نکات میں سے ایک تھا، کیا ہمیں ستمبر 2020 میں پتہ تھا کہ یوکرین کا تنازعہ ہو گا؟ اگر یہ سازشی دعویٰ درست تھا تو اس کو ظاہر کرنے کے لیے آخری لمحے کا انتظار کیوں کیا گیا؟ اسے اسی دن اْس سفارت کار کو ملک بدر کر دینا چاہیے تھا۔ یہ کرکٹ کا کھیل نہیں ہے۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے۔ آج پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا اسے درگذر نہیں کیا جا سکتا۔ تحریکِ عدم اعتماد اقتدار کی منتقلی کا واحد جمہوری طریقہ ہے۔ اگر پارلیمنٹ کی پرامن انتقالِ اقتدار میں آج رکاوٹ ڈالی گئی ہے تو سپریم کورٹ میں بھی اقتدار کی منتقلی کی مثال قائم ہو سکتی ہے۔ راولپنڈی میں اور بھی ادارے ہیں، جن کو بھی اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ وہ ہماری حمایت نہ کرے۔ ہم سپریم کورٹ کو سلام پیش کرتے ہیں کہ اس نے اتوار کا دن ہونے کے باوجود ذمہ دارانہ رویہ دکھایا ہے۔ ہماری امیدیں اس سے وابستہ ہیں۔ آئین کو منسوخ کیا گیا اور آج ایک سو فیصد توہین عدالت بھی کی گئی ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں