کراچی (پی این آئی)پاکستان پیپلز پارٹی کے اعلا ن کردہ عوامی مارچ میں شرکت کیلئے روانگی سے قبل محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی صاحبزادی آصفہ بھٹو نے اپنے بھائی اورپیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو امام ضامن باندھا ۔بلاول بھٹو زردار ی سلامتی کی دعائوں کے ساتھ عوامی مارچ کی قیادت کے لئے رخصت ہوئے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے کراچی سے شروع کئے جانے والے عوامی مارچ کے 38 مطالبات کے نکات جاری کرتے ہوئے
تمام اداروں کے اپنی اپنی آ ئینی حدود میں رہتے ہوئے کارکردگی اور اختیارات ہوں، 1973 کے آئین میں دئیے گئے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے جدا جدا اختیارات کے اصولوں کی پاسداری کی جائے،آزاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا قیام کیا جائے، اعلی عد لیہ کے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کے 1973 کے آئین میں دیئے گئے کردار کا ازسر نو تعین کیا جائے، ایک آزاد اور قابل احتساب عد لیہ کو ممکن بنایا جائے،بلوچستان کے عوام کے پاکستان کے آئین کے تحت دئیے گئے
حقوق کی یقینی فراہمی اور ان کی فیصلہ سازی کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے، ایسے افراد کے سوا جن پر خطرناک نوعیت کے الزامات ہیں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانا اور سیاسی گفت و شنید کے ذریعے بلوچ سیاسی رہنماوں کو ملک میں واپس لانے اور ان کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے ۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے عوامی مارچ کے جاری کئے گئے مزید نکات میں کہا گیا ہے کہ ہر سطح پر ایماندارانہ اور آزادانہ انتخابات اور حکومت کا نظم و نسق 1973 کے آئین کے مطابق چلایا جائے،پارلیمنٹ اور کمیٹی سسٹم کا استحکام اور پائیداری کی جائے،
قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے، ملک بھر کے تمام مزدوروں کو سندھ کی طرز پر یونین سازی کا حق دیا جائے، طلبا ء کے لئے یونین سازی کا حق اور طالبعلموں کی فلاح و بہبود کے امور میں ان کا فیصلہ ساز کردار تسلیم کیا جائے، آزادی اظہار کے حق کو یقینی بنایا جائے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں باضابطہ اور غیر اعلانیہ دونوں قسم کی سنسر شپ کا خاتمہ کیا جائے، میڈیا کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق پیمرا کی آزادی کے لئے نئی قانون سازی کی جائے۔
عوامی مارچ کے مطالبات میں مزید کہا گیا ہے کہ سائبر کرائم قانون کی تمام غیر منصفانہ اور جابرانہ دفعات کا خاتمہ کیا جائے، تمام پبلک اداروں میں ڈیٹا کے تحفظ کے لئے نئی قانون سازی کی جائے، تمام ضرورت مند مردوں اور خواتین کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی توسیع اور اصلاح کی جائے، ایک مساوات کمیشن کا قیام کیا جائے جو صوبوں کی مشاورت سے تمام خواتین اور اقلیتوں کے لئے منصفانہ اجرت اور روزگار پالیسی مرتب کرے، خواتین کے خلاف تشدد، گھریلو تشدد،
تیزاب کے حملوں اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے قوانین پر لازمی عملدر آمد کو یقینی بنایا جائے، تمام پبلک مقامات ، پبلک ٹرانسپورٹ اور پبلک سہولیات میں خواتین، بچوں اور خصوصی اقلیتوں کے افراد کا باسہولت داخلہ یقینی بنایا جائے، 16 سال کی عمر تک بچوں کی آئین میں دی گئی شق کے مطابق لازمی تعلیم کو ایک مقررہ مدت کے اندر اندر یقینی بنایا جائے، قابل استطاعت صحت اور علاج معالجے کے حقوق کی فراہمی کو سرکاری اور منظور شدہ نجی شعبے کے ہسپتالوں کے نیٹ ورک کے ذریعے یقینی بنایا جائے، ان خواتین کے لئے جنہیں زچہ اور بچہ کے سلسلے کی مفت خدمات اور نقد معاوضے کی ضرورت ہے
ایک مقررہ مدت کے اندر اندر ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اقلیتوں کی جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کیا جائے، صوبائی خودمختاری اور آئین کی اٹھارویں ترمیم اور آئین کی دیگر شقوں کے تحت دیئے گئے صوبائی حقوق مثلاً نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے مقررہ مدت پر اجرا ء کی گارنٹی دی جائے۔ عوامی مارچ کے مطالبات کے نکات میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت تیل اور گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو ان کی تیل اور گیس کی پیداوارپر اپنی ضروریات پوری کرنے کے ترجیحی حقوق کو موثر بنایا جائے،
پر تشدد انتہا پسندی کی بیخ کنی کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، جنوبی پنجاب کے عوام کی شناخت اور ان کی خواہشات کے مطابق جنوبی پنجاب کے نئے صوبے کا قیام اور اس علاقے کو نظر انداز کئے جانے اور اس کی پسماندگی کا خاتمہ کیا جائے، لگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے علاقہ جات کی مالیاتی خودمختاری اور ان کو ان کے ریونیو اور مرکز سے تفویض کردہ مالی وسائل پر مکمل اختیار دیا جائے، مزدوروں کو قابل گزارہ اجرت کی ادائیگی کا حق دیا جائے،
تمام مزدوروں بشمول ان مزدورں کے جو معیشت کے ان فارمل شعبوں ، کنٹریکٹ لیبر ، اپنے گھر سے کام ، گھریلو ملازمین اور موسمی مزدورہیں سوشل سکیورٹی کا تحفظ فراہم کیا جائے، زرعی شعبے کے مزدوروں اور چھوٹے کسانوں پر لیبر قوانین ، کم سے کم اجرت کے قانون ، سوشل سیکیورٹی اور زیادہ سے زیادہ کام کے اوقات کے قوانین کا اطلاق کیا جائے، اس وقت سندھ واحد صوبہ ہے جس میں خواتین کھیت مزدوروں کو رجسٹر کرنے اور اان کو قانونی تحفظ اور حقوق فراہم کرنے کے لئے قانون پاس کیا گیا ہے،
ان قوانین کو تمام ملک میں لاگو کیا جائے، زرعی اجناس کی قیمتوں اور ان پر سبسڈی کے لئے ایک نیا فریم ورک تشکیل دیا جائے جس سے قومی پیمانے پر غذائی تحفظ کے حق کی پاسداری، مستحکم نرخوں اور شہری اور دیہی عوام کی یکساں آمدنی کو یقینی بنایا جائے، غریب طبقات کے لئے رہائش کی فراہمی کے حق اور ان کو جبری طور پر گھر سے بے دخل کرنے کے خلاف قانون سازی کی جائے، کچی آبادیوں اور انتہائی پسماندہ علاقوں کو ریگولرائز کرنے اور ان کو بنیادی شہری سہولتیں فراہم کرنے کے لئے قانونی فریم ورک کی تیاری کی جائے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں