اسلام آباد (پی این آئی) جنگ گروپ سے وابستہ سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی کا کہنا ہے کہ شریف فیملی سے شہباز شریف ہی وزارت عظمیٰ کے عہدے کیلئے منتخب ہوں گے لیکن اگر آج کی بات کی جائے تو شہباز شریف اُن لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں جو اہم ہیں۔ لیکن اگر کسی بھی وجہ سے شہباز شریف اس عہدے کے امیدوار نہیں ہو پاتے تو شاہد خاقان عباسی شریف فیملی سے باہر کے امیدوار ہوں گے۔
انصار عباسی کے مطابق نواز شریف سے قریبی رابطہ رکھنے والے نون لیگ کے ایک باخبر ذریعے نے بتایا ہے کہ مریم نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے کی امیدوار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شریف فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ عام انتخابات میں کامیابی کی صورت میں اگر خاندان سے کسی کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کیلئے نامزد کرنا ہے تو وہ شہباز شریف ہوں گے۔
شریف فیملی کے باہر سے اگر کوئی اولین چوائس ہے تو وہ شاہد خاقان عباسی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے وہ مقتدر حلقے کیلئے قابل قبول بھی ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق اس ذریعے کا کہنا تھا کہ نواز شریف شہباز شریف کی نامزدگی کے حوالے سے اپنی سوچ میں واضح ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چونکہ مریم کے پاس ابھی وقت ہے اسلئے وہ انتظار کرسکتی ہیں۔
تاہم، بالواسطہ پیغامات کے ذریعے نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شہباز شریف قابلِ قبول نہیں ہیں۔ذریعے کا کہنا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ مفاہمت کی سیاست کے باوجود شہباز شریف کو منفی فہرست میں کیوں رکھا گیا ہے، ممکن ہے کہ یہ سوچ آئندہ دنوں میں تبدیل ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف مقتدر حلقے کو قبول ہیں اور شریف فیملی سے باہر کی بات کی جائے تو نواز شریف بھی انہیں اس عہدے کیلئے موزوں سمجھتے ہیں۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ نواز شریف کیلئے مریم نواز وزارت عظمیٰ کے عہدے کی امیدوار نہیں ہیں۔ ذریعے نے تصدیق کی ہے کہ مقتدر حلقوں کے ساتھ نون لیگ کی قیادت کا بالواسطہ رابطہ ہوا ہے۔ تاہم، نون لیگ کی قیادت کو یہ نہیں معلوم کہ شہباز شریف کو قابل قبول کیوں نہیں سمجھا جا رہا۔کہا جاتا ہے کہ 2023ء کے عام انتخابات میں شہباز شریف امیدوار ہوں یا پھر شاہد خاقان عباسی، دونوں میں سے جو بھی نامزد ہوا پارٹی اس کی بھرپور حمایت کرے گی۔
جہاں تک 2023ء سے قبل عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا منظر نامہ ہے اس حوالے سے ذریعے کا کہنا تھا کہ نون لیگ اپنی حکومت تشکیل دے گی اور نہ ہی کسی ’’وسیع تر انتظام‘‘ کا حصہ بنے گی۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں