اسلام آباد (پی این آئی) تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف بڑے اپوزیشن اتحاد کے اندر ایک طرف حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب ان کوششوں کے نتیجہ خیز نہ ہونے اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوںکی قیادت کی جانب سے ہر لمحہ جوڑ توڑ کی کارروائیوں کے باعث مایوسی کا عنصر بھی بڑھتا جا رہا ہے،
اردو روزنامے جنگ کے سینئر صحافی فاروق اقدس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہی اجلاس میں ہونے والی کارروائی کے دوران ان تمام ایشوز پر مفصل گفتگو ہوئی تھی جو ایک روز قبل پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں تمام جماعتوں کے رہنمائوں اور قائدین نے مشاورت کے ساتھ ایجنڈے کے طور پر تیار کی تھی لیکن طویل دورانیے کے اس اجلاس میں جو کم و بیش 5 گھنٹے پر محیط تھا اس کے اختتام پر مولانا فضل الرحمان نے اجلاس کی کارروائی تو بتائی لیکن میڈیا کی جانب سے تمام سوالوں کا جواب صرف ’’6 دسمبر تک انتظارر فرمائیے‘‘ایک جملے پرمشتمل تھا جو حلقے منگل کو اسلام آباد میں ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں غیر معمولی طور پر اہم فیصلوں کے اعلان کی توقع لگائے بیٹھے تھے جن میں خود حکومت اور میڈیا بھی شامل تھا انہیں خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور حکومتی ترجمانوں کو پی ڈی ایم کی ’’اس مصروفیت‘‘ پر تنقید کا بھی موقع ملا لیکن منظر پر موجود اس صورتحال کا ایک اوجھل منظر بھی ہے۔
فاروق اقدس کا کہنا ہے کہ ویسے تو مولانا فضل الرحمان اس بات پر خاصے عرصے سے رنجیدہ ہیں کہ پہلے بھی جب اتحاد میں 11 جماعتیں شامل تھیں اور اب جبکہ 9 جماعتیں ہیں حکومت کے غیر قانونی غیر آئینی اقدامات کیخلاف بھرپور اور موثر انداز میں احتجاجی تحریک چلانے کیلئے ان کی تجاویز مشوروں اور فیصلوں کی تائید کرنے کے باوجود عملی طور پر ان کا ساتھ نہیں دیا جاتا اس کے علاوہ بھی مولانا فضل الرحمان کی دل گرفتگی کے واقعات کی فہرست طویل ہے جن کا ذکر کرتے ہوئے وہ خاصے ’’کبیدہ خاطر ‘‘نظر آتے ہیں ،پی ڈی ایم اجلاس میں ایک موقع پر مولانا نے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر پی ڈی ایم کے اس اتحاد کو اسی طرح چلانا ہے تو وہ اس کی سربراہی سے دستبردار ہونے کیلئے تیار ہیں ۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں