اسلام آباد (پی این آئی) عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکومت کے پاس مہنگائی پر قابو پانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ، آئی ایم ایف سے مذاکرات میں کامیاب ہوجائیں پھر بھی حکومت کو منی بجٹ پیش کرنا ہوگا۔روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی خبر کے مطابق، عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکومت کے پاس مہنگائی کے دبائو پر قابو پانے کا کوئی
راستہ نہیں بچا ہے۔اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ یا اس کے بغیر پاکستان کی معیشت مشکل صورت حال کی جانب جارہی ہے، جہاں حکومت کے پاس محدود اختیارات ہیں، جس کی وجہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ ہے۔اوگرا نے بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب 8 روپے اور 11 روپے فی لیٹر اضافے کی سفارش کی ہے، جب کہ حکومت کے پاس بھی کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ ان اضافوں کو روک سکے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 83.40 ڈالرز
فی بیرل تک پہنچ چکی ہے، اس لحاظ سے مقامی مارکیٹ میں قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔اگر پاکستان کی معیشت کے نگران جاری پالیسی سطح کے مذاکرات میں اسٹاف لیول معاہدہ کرلیتے ہیں جو ہ واشنگٹن ڈی سی میں آج سے شروع ہورہے ہیں تو پاکستان کی ادائیگی کے توازن میں بہتری ہوسکتی ہے کیوں کہ آئی ایم ایف بیرونی مالی ضروریات پوری کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔بصورت دیگر عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ذریعے حاصل ہونے والی فنانسنگ ختم ہوجائے گی
اور عالمی بونڈز کے اجرا کے ذریعے ڈالرز جمع کرنے کا طریقہ کار مہنگا انتخاب ثابت ہوگا۔ جب ادائیگی میں توازن کا بحران سنگین ہوتو شرح مبادلہ قابو سے باہر ہوجاتی ہے اور مہنگائی میں تیزی سے اضافہ کرسکتی ہے۔تاہم، اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر وزیر خزانہ شوکت ترین جاری مذاکرات میں معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب بھی حکومت کو منی بجٹ پیش کرنا ہوگا تاکہ ذاتی انکم ٹیکس بالخصوص زیادہ آمدنی والوں پر اور دوسرا جی ایس ٹی استثنا ختم کرنا ہوگا۔
مسئلہ صرف یہیں ختم نہیں ہوگا کیوں کہ حکومت سے کہا جائے گا کہ وہ بجلی ٹیرف میں بھی 1.40 روپے فی یونٹ اضافہ نومبر 2021 کے اختتام تک کرے۔اس کے علاوہ حکومت کو گیس ٹیرف بھی بڑھانا ہوگا۔ حالاں کہ موسم سرما میں گیس کا شدید بحران متوقع ہے۔ اخراجات کے حوالے سے آئی ایم ایف فنڈز کے استعمال کو قابو کرنے کی تجویز بھی دے سکتا ہےجو کہ سالانہ ترقیاتی منصوبے کے تحت قومی اقتصادی کونسل اور پارلیمنٹ سے منظور ہوئے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں