طالبان نے ہلمند صوبے کے سب سے اہم شہر اور دارالحکومت پر بڑا حملہ کردیا ، خوفناک لڑائی جاری

اسلام آباد (پی این آئی)طالبان نے ہلمند صوبے کے سب سے اہم شہر اور دارالحکومت لشکرگاہ پر بڑا حملہ کردیا ہے جس کے بعد افغان سیکیورٹی فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان خوفناک دوبدو لڑائی جاری ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق طالبان اگر لشکرگاہ پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ جنگجوؤں کا کسی بھی صوبائی دارالحکومت پر پہلا باقاعدہ قبضہ ہوگا۔دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ہمارے سیکیورٹی پلان کو امریکا کی حمایت حاصل ہے، سیکیورٹی پلان کے تحت آئندہ 6 ماہ میں صورتحال قابو میں آجائیگی۔میڈیارپورٹس کے مطابق اشرف غنی نے قومی اسمبلی کے مشترکہ سیشن سے خطاب میں کہا کہ حالیہ صورتحال غیر ملکی افواج کے فوری انخلا کے فیصلے کے باعث ہوئی، آج ہمارے لوگ جارحیت کی واضح حالت میں ہیں، جارحیت اور جنگ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب تک طالبان امن کیلئے آمادگی ظاہرنہیں کرتے صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی، سیکیورٹی پلان کے تحت آئندہ 6ماہ میں صورتحال قابو میں آجائیگی، ہمارے سکیورٹی پلان کو امریکا کی حمایت حاصل ہے، سکیورٹی پلان پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔افغان صدر نے کہا کہ کسی بھی تباہ کن قوت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکوں گا، ہم یا تو مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے یا ان کے گھٹنے میدان جنگ میں توڑدیں گے، ہم نے اپنی ترجیحات طے کرلیں۔ طالبان، ان کے حامی اپنی ترجیحات طے کرلیں۔اشرف غنی نے کہا کہ ہماری جیت کیلئے واحد راستہ صرف اتحادہے، افغان خواتین کویقین دلاتاہوں، قوم انکے حقوق کا دفاع کر رہی ہے۔دوسری جانب افغان وزارت دفاع نے دعوی کیا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 15صوبوں میں افغان فورسزکے آپریشن کے دوران 455 طالبان جنگجو ہلاک ہوگئے ۔میڈیارپورٹس کے مطابق وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہاکہ افغان فورسز نے ننگرہار، پکتیا، پکتیکا، لوگر، قندھار، ہرات، فاریاب میں آپریشن کیے۔افغان فورسز نے جوزجان، بلخ، سمنگان، ہلمند، تخار، قندوز، بغلان، کاپیسا میں بھی آپریشن کئے۔ دوسری جانب امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن انتظامیہ افغان پناہ گزینوں کیلئے ایک نیا پروگرام شروع کرے گی۔نیا مہاجرین پروگرام افغانستان میں امریکا کیساتھ کام کرنے والے افغانوں کیلئے ہوگا، امریکی فنڈڈ پروجیکٹس غیرملکی این جی اوز، غیر ملکی میڈیا کیلئے کام کرنے والے افغانیوں کیلئے ہوگا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں