کابل (این این آئی)ترک صدر طیب اردگان کا کہنا ہے کہ طالبان کا رویہ ایسا نہیں ہے جو ایک مسلمان کا دوسرے کے ساتھ ہونا چاہیے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ طالبان کو فوری طورپر افغانستان پر اپنا قبضہ ختم کر دینا چاہیے، دوسری جانب کابل میں امریکہ سمیت 16 ممالک کےسفارتی مشنز نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی حالیہ جنگی کارروائیاں فوری طور پر روک دیں جو تنازع کے مذاکرات کے ذریعے حل اور شہری آبادی کو نقصان پہچانے کے علاوہ ان کو بے گھر کرنے کا بھی سبب بن رہی ہیں۔پیر کو کابل میں امریکی سفارت خانے سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی حالیہ کارروائیاں ان کے دوحہ میں کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعے کا حل چاہتے ہیں۔طالبان کا جارحانہ رویہ دوحہ امن عمل اور ان کی جانب سے مذاکرات کی بنیاد پر ہونے والے سمجھوتے کی حمایت کے دعوے کے برعکس ہے۔ طالبان کی جارحیت کے نتیجے میں معصوم افغان شہریوں کی ہلاکتوں سمیت ٹارکٹ کلنگ، افغان شہریوں کی نقل مکانی، لوٹ مار اور ذرائع مواصلات کی بربادی جیسے واقعات پیش آئے ہیں۔امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کابل میں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، سپین، سویڈن، جمہوریہ چیک اور یورپین یونین کے دفتر نے طالبان کے حملوں کی مذمت کی ہے۔بیان کے مطابق ’ہم افغانستان کے مختلف علاقوں میں جاری ٹارگٹ کلنگ، انفرااسٹرکچر کی تباہی، دھمکی آمیز اعلانات اور افغان عوام کے مفادات کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔کابل میں سفارتی مشنز کے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان کے جن اضلاع میں طالبان کا کنٹرول ہے وہاں کے شہری اور مبصرین مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کر رہے ہیں۔مبصرین یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان علاقوں میں طالبان کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے اداروں کو بند کروایا جا رہا ہے تاکہ ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اورآزادی اظہار کو دبانے کے اقدامات کو چھپایا جا سکے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم افغان عوام کے انسانی حقوق کو پامال کرنے والے ایسے سبھی اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ افغان عوام نے گزشتہ 20 برس میں کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ افغان عوام کی ترقی، انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی پاسداری کا سفر جاری و ساری رہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ برسوں کی ہوئی پیش رفت صرف اسی صورت میں پائیدار ہو سکتی ہے کہ سب گروہ مل کر کام کریں۔‘ان ممالک نے مطالبہ کیا ہے کہ ’عیدالاضحیٰ پر طالبان ہتھیار ڈال کر دنیا کو یہ باور کرائیں کہ وہ افغانستان میں امن عمل کے معاملے میں یکسو ہیں۔دوسری جانب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان میں دوحہ میں ہونے والے دو روزہ مذاکرات کسی اہم پیش رفت کے بغیر ختم ہو گئے اور دونوں فریقین کے مطابق اگلے ہفتے دوبارہ بات چیت کا آغاز کیا جائے گا۔خیال رہے کہ دوحہ مذاکرات کے دوسرے طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’اسلامی امارات ایک سیاسی حل کی حمایت کرتی ہے باوجود اس کے کہ اسے میدان میں کامیابیاں مل رہی ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں