کابل (پی این آئی )افغان حکومت کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ طالبان جنگجوئوں نے وسطی افغانستان کے شہر غزنی کو گھیرے میں لے لیا ہے اور سیکیورٹی فورسز سے لڑنے کے لیے شہریوں کے گھروں پر قبضہ کر لیا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق دو عہدیداروں نے کہا کہ غزنی جیسے ترقی یافتہ شہرکو انتہا پسندوں کی طرف سے سخت خطرہ درپیش ہے۔یہ حملہ صوبائی دارالحکومت کی طرف طالبان کی تازہ ترین پیش قدمی کا حصہ ہے۔ طالبان غیر ملکی افواج کیانخلا کے بعد ایک نئے حوصلے اور جذبے کے تحت غزنی شہر کا گھیرا کر رہے ہیں اور وہ اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔غزنی کی صوبائی کونسل کے ایک رکن حسن رضائی نے کہا کہ غزنی شہر کی صورتحال انتہائی نازک ہے۔ طالبان عام شہریوں کے گھروں کو فوجی مورچوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور افغان سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کرتے ہیں۔گذشتہ اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ امریکی افواج گیارہ ستمبر تک افغانستان میں اپنی 20 سالہ جنگ ختم کرنے کئے بعد واپس چلی جائے گی۔افغانستان میں جنگ کی قیادت کرنے والے امریکی جنرل آسٹن ملر نے آج امریکا کے طویل ترین تنازعہ کے علامتی اختتام پر کمان سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔بہ ظاہر قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات کا عمل جاری ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔مقامی شہریوں نے بتایا کہ جنوبی صوبہ قندھار میں بھی دونوں اطراف کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں ، جہاں روایتی طور پر طالبان کی پوزیشن مضبوط ہے۔غزنی شہر کابل اور قندھار شہر کو ملانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔افغان پارلیمنٹ کے ایک سابق رکن حمیدزی لالی جو قندھار میں دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ طالبان سے لڑ رہے ہیں نے کہا کہ اب چار دن سے طالبان عسکریت پسند مغرب سے قندھار شہر پر حملہ کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ افغان سیکیورٹی فورسز بشمول خصوصی دستے طالبان سے لڑ رہے ہیں اور انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وزارت دفاع کے ترجمان فواد امان نے کہا کہ قندھار کی صورتحال افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ قندھار میں حالیہ ایام میں طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی اور زمینی حملے کیے گئے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں