اسلام آباد(پی این آئی)عجیب جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب حکومت نے ایک ایسا آرڈیننس نافذ کیا ہے جس میں 6 ہزار غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیز کو دو فیصد کے معمولی جرمانے کے عوض ریگولرائز کر دیا گیا ہے۔اس اقدام کو لینڈ مافیا کیلئے این آر او قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ تمام تر کارروائی خاموشی کے ساتھ مکمل کی گئی کیونکہ سرکاری حکام کو اس معاملے پر غور و خوصہی نہیں کرنے دیا گیا جبکہ ایک آئینی عہدیدار نے قانون کا مسودہ تیار کیا جبکہ قانون کی منظوری کابینہ سے سرکیولیشن کے ذریعے لی گئی۔روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ
کی شائع خبر کے مطابق اس معاملے پر کئی وزرا نے رائے دینے سے گریز کیا اور ان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا گیا۔ ایک وزیر نے بتایا کہ رائے معلوم کرنے کے حوالے سے انہیں کوئی سمری موصول نہیں ہوئی۔ اس معاملے سے آگاہ ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ غیر قانونی ہائوسنگ اسکیموں کو ریگولرائز کرنے کے پنجاب کمیشن آرڈیننس 2021 نافذ کرکے صرف دو فیصد جرمانہ عائد کیا گیا ہے اور یہ ایسا ہے جیسے کسی کو خالی چیک دیدیا گیا ہو۔انہوں نے کہا کہ 6 ہزار ہائوسنگ سوسائٹیز غیر قانونی ہیں، ان میں سے 1500 ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں جن میں ایل ڈی اے، راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی، گجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی وغیرہ شامل ہیں۔ باقی ہائوسنگ سوسائٹیز ضلعی حکومتوں اور میونسپل کارپوریشنز کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ سرکاری خط و کتابت کا جائزہ لیں تو یہ معاملہوزیراعلیٰ پنجاب نے شروع کیا جو بلدیاتی حکومتوں کے بھی وزیر ہیں۔انہیں وفاقی حکومت کی بھی حمایت حاصل ہے، اس معاملے کو حقیقت کا روپ دینے کی اتنی جلدی تھی کہ کابینہ سے منظوری بھی سرکیولیشن کے ذریعے لی گئی کیونکہ اس معاملے پر پیشرفت سے وزیراعظم کو آگاہ کرنا تھا۔اس قانون کو آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا گیا کیونکہ پنجاب اسمبلی سیشن میں نہیں تھی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہائوسنگ سوسائٹیز کا معاملہ پرانا ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی قانون سازی اس وقت ہونا ہوتی ہے جب اسمبلی سیشن میں ہو۔ معلوم ہوا ہے کہ ایک سرکردہ آئینی عہدیدار نے اسقانون کا مسودہ تیار کیا حالانکہ یہ کام ایگزیکٹو برانچ کا تھا۔آرڈیننس کے ذریعے قائم کیے گئے کمیشن (دی پنجاب کمیشن فار ریگولرائریشن آف اِر ریگولر ہائوسنگ اسکیمز) کے چیئر پرسن سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحب ہوں گے جنہیں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی مشاورت کے ساتھ تعینات کیا جائے گا۔کمیشن میں چار ارکان ہوں گے جن میں ایک ٹائون پلانر، ایک سول انجینئر، ایک ماحولیاتی ماہر اور ایک قانونی ماہر شامل ہوں گے۔ ارکان کو صوبائی حکومت نامزد کرے گی۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق، اس معاملے پر صوبائی اور وفاقی حکومت متفق ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں