سلام آباد(پی این آئی)سینئر صحافی ، کالم نگار اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ اپنے کالم ’’پھانس چبھی ہے ‘‘میں لکھتے ہیں کہ سیدھا سادہ شہری ہونے کے ناطے میں ریاستی بیانیے پر مکمل یقین رکھتا ہوں، امن پسند ہونے کے سبب مصلحت بھی اسی میں سمجھتا ہوں کہ اس بیانیے پر یقین رکھا جائے۔ جب ریاستی بیانیے میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ مقتدرہاب سیاست سے دور ہٹ گئی ہے اور سیاسی معاملات میں مقتدرہ کی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہے تو میرا دل بہت خوش ہوا، میں نے اس بیانیے پر نہ صرف دل و جان سے یقین کر لیا بلکہ اس موقف کے حق میں صفحات کے صفحات سیاہ کر ڈالے۔ میرا ذہن اور ضمیر صاف تھا، مجھے یقین تھا کہ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اب یہ احساس پختہ ہو گیا ہے کہ کار سیاست میں الجھنا کوئلوں کی دلالی کے مترادف ہے اور سیانے سے سیانا فردبھی اپنے ہاتھ کالے کر بیٹھتا ہے۔ اطمینان اور خوشی کی اسی لہر کے دوران سینیٹ کا الیکشن آ گیا، اب یہ ایک طرح سے نئے بیانیے کا امتحان تھا اور دیکھنا یہ تھا کہ کیا واقعی مقتدرہ سیاست سے الگ تھلگ ہے یا اب بھی کہیں نہ کہیں الجھی ہوئی ہے؟ سینیٹ الیکشن شروع ہی ہوا تو پرویز رشید کا معاملہ اٹھا۔ پرویز رشید اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں مگر پارلیمانی جمہوریت کے زبردست حامی و موید۔ ان کے بارے میں اعتراضات سامنے آئے تو یوں لگا جیسے عدالت ان سے واجبات وصول کرکے انہیں کلیئر کر دیگی۔جب عدالتوں کے کئی چکروں کے بعد بھی پرویز رشید کو اہل قرار نہ دیا گیا تو لگا کہ دال میں کہیں کالا ضرور موجود ہے مگر میں سدا کا خوش فہم ہوں اس لئے سوچتا رہا کہ بالآخر سازشی تھیوریاں دم توڑ دیں گی اور پرویز رشید کو الیکشن کے لئے اہل قرار دے دیا جائے گا۔میں یہ بھی سوچتا تھا کہ پرویز رشید سے مقتدرہ کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا دوچار اختلافی آوازوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، میرا خیال تھا کہ پرویز رشید جیسا اکیلا اور پرامن شخص مقتدرہ کے لئے خطرہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میری تمام تر خوش فہمی اس وقت رفو ہو گئیجب بالآخر پرویز رشید کو سینیٹ کی دوڑ سے باہر کر دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن، میرے دل میں پھانس سی چبھی ہوئی ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جنہیں پرویز رشید کی اکلوتی اختلافی مگر مہذب آواز بھی پسند نہیں۔ میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ پرویز رشید کو سینیٹ سے باہر کسنے کروایا اور اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس سے دوبارہ اس تاثر کو تقویت نہیں ملی کہ مقتدرہ اب بھی سیاست میں اپنے من پسند فیصلے کرنا چاہتی ہے؟ ہے کوئی جو میری پھانس کو نکالے اور میری خوش فہمی واپس دلا دے اور مجھے یقین دلائے کہ ریاستی بیانیہ درست اور میرا شکغلط ہے۔ اس واقعے کو چند ہی دن گزرے تھے کہ اسلام آباد سیٹ پر یوسف رضا گیلانی اور حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کا سینیٹ انتخابات میں آمنا سامنا ہو گیا۔سنا گیا کہ مقتدرہ نے کچھ رول ادا کیا، صدر زرداری نے کچھ افسران کی شکایت بھی اعلی حکام تک پہنچائی مگر یوسف رضا گیلانیکی جیت سے یہ شک دور ہو گیا اور واضح ہو گیا کہ مقتدرہ نے حکومت کے حق میں کوئی زوردار کردار ادا نہیں کیا ورنہ لازما حکومت جیت جاتی، یوں مقتدرہ نے غیر جانبداری کے بیانیے کا کچھ نہ کچھ خیال رکھا۔ ابھی اس بھرم پر یقین پختہ نہ ہوا تھا کہ ایک نیا دھچکا لگ گیا،چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا مرحلہ آگیا۔ ایک طرف اپوزیشن کے یوسف رضا گیلانی تھے اور دوسری طرف حکومتی امیدوار صادق سنجرانی، بظاہر اپوزیشن ارکان کی تعداد زیادہ تھی اور انہی کا چیئرمین منتخب ہونا چاہئے تھا مگر یہاں پر پھر چمتکار نظر آیا، پہلے کیمرے پکڑے گئےپھر مظفر حسین شاہ نے نام کے اوپر لگائی گئی مہروں کو مسترد کرکے اپوزیشن کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا۔ یوں میرے سینے میں چبھی پھانس مزیدگہری ہو گئی۔ میں سوچتا ہوں کہ مقتدرہ کو کیا فرق پڑ جاتا اگر یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو جاتے؟ کوئی آسمانتو نہیں گر پڑنا تھا، حکومت اسی طرح چلتی رہنی تھی، نظام کو بھی کوئی فوری خطرہ نہ تھا تو آخر یہ کون سے بزر جمہران ہیں جو ایسے فیصلے کرکے ریاستی بیانیے کو غلط ثابت کرتے ہیں؟کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ ریاست اپنے بیانیے پر قائم رہے اور بیانیے سے ہٹنے کی جو مثالیں ہمارےسامنے آتی ہیں وہ ختم ہوں۔ اکثر لوگ ریاستی بیانیے پر ہمیشہ سے شک کرتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ ریاست کہہ تو رہی ہے کہ ہم سیاست میں حصہ نہیں لے رہے، کسی معاملے میں مداخلت نہیں کر رہے لیکن پرویز رشید کی نااہلی ہو یا سینیٹ چیئرمین کا انتخاب، ہر جگہ اہلِ سیاست کیبے بسی اور مقتدرہ کی بے مہار طاقت نظر آتی ہے۔ اگر ریاست نے اپنے شہریوں اور ریاست کے درمیان اعتماد اور محبت کا لازوال رشتہ قائم کرنا ہے تو پھر اسے مداخلت کے رویے سے باز رہتے ہوئے، واقعی سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرناچاہئے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں