اسلام آباد(پی این آئی )پاکستان ڈیموکرٹیک مومنٹ کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی پی ڈیم ایم کے متفقہ امیداوار ہوں گے ،لانگ مارچ 26مارچ ہوگا ،30مارچ کو تمام قافلے اپنی منزل مقصود فیض آباد پہنچنا شروع ہوجائیں گے ،مارچ کے قیام کے حوالے سے فیصلہ 15مارچ کو پی ڈی ایم کے
سربراہی اجلاس میں کیا جائےگا ،قومی اسمبلی کا اجلاس آئین کے تحت نہیں بلایا گیا اور اعتما د کا ووٹ بھی غیر آئینی طریقے سے حاصل کیا گیا جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،یوسف رضاگیلانی کی کامیابی کو حکومت کی طرف الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا گیا ہے اگر یہ انتخابات غلط تھے تو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی ،اب حکومت اوپن بیلٹنگ کا آرڈیننس کب لیکر آرہی ہے ،سینیٹ الیکشن کا پہلا مرحلہ پی ڈی ایم نے جیت لیا دوسرہ مرحلہ آرہاہے ایک ایک کرکے سب جیتیں گے ۔ان خیالات کا اظہار پی ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل رحمن ،پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری ،مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے پی ڈی ایم کے پیپلز پارٹی کے میزبانی میں ہونے والے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں پی ڈی ایم کے تمام جماعتوں، نواز شریف، آصف علی زرداری اور احسن اقبال نے ویڈیولنک پر شرکت کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اجلاس نے متفقہ طور پر یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لیے امیدوار نامزد کردیا ہے، ڈپٹی چیئرمین سیینٹ اور سینیٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن کےلیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس کا اجلاس آ ج بروز منگل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ کمیٹی شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں آج اپنا اجلاس منعقد کرے گی، جس میں افتخار حسین، ڈاکٹر جمالدینی، طاہر بزنجو، عثما ن کاکڑ، اکرم خان درانی، راجا پرویز اشرف اور حافظ عبدالکریم شرکت کریں گے۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ چند روز قبل پارلیمنٹ لاجز کے سامنے جب مسلم لیگ کے قائدین پریس سے بات کر رہے تھے تو اس وقت پی ٹی آئی
کے غنڈوں نے ان پر حملہ کیا اورملک کے انتہائی محترم اور باوقار سیاسی قائدین کی توہین و تذلیل کرنے کی کوشش کی۔ان کا کہنا تھا کہ سب سے افسوس ناک بات یہ کے مریم اورنگ زیب کے آنچل کو سبوتاڑ کرنے اور تار تار کرنے کی کوشش کی، یہ انتہائی قابل نفرت واقعہ ہے اور پی ٹی آئی کے اندر جس طرح کا کلچر فروغ دیا جا رہا ہے یا دیا گیا ہے اورجس طرح ان کی قیادت اپنے اخلاق و اطوار اپنے کارکنوں میں منتقل کر رہے ہیں یہ اس کا مظاہرہ تھا۔انہوں نے کہا کہ اجلاس نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور اس کو حکومت کی بوکھلاہٹ قرار دیا۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جیسے کہ پی ڈی ایم نے اعلان کر چکی ہے کہ 26 مارچ کو لانگ مارچ کا آغاز ہوگا اورملک کے تمام علاقوں، کونے کونے سے قافلے روانہ ہوں گے اور آج کے اجلاس میں 26 مارچ میں لانگ مارچ کا فیصلہ کیا گیا اور پوری قوم سے اپیل کی گئی کہ اس غیرآئینی اور غیر جمہوری حکومت کے خاتمے کے لیے قوم کردار ادا کر ے ۔انہوں نے کہا کہ 30 تاریخ تک یہ قافلے منزل مقصود پر پہنچنا شروع ہوجائیں گے اورلانگ مارچ کے یہاں قیام اور اس کے یہاں قیام کی حکمت عملی کے لیے 15
مارچ کو سربراہی اجلاس دوبارہ ہوگا جس میں مزید تفصیلات واضح کی جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ ہفتے کو قومی اسمبلی میں جس طرح سے ایک جعلی وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، آئین کے آرٹیکل 91 کلاز 7 کے تحت یہ اجلاس صدر ہی بلا سکتا ہے لیکن یہاں اس اجلاس کو بلانے کے لیے جعلی وزیراعظم نے سمری بھیجی ہے جبکہ آئین میں وزیر اعظم کے حوالے سے سمری کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ صدر مملکت براہ راست اطمینان حاصل کرلے کہ اب یہ اکثریت کا اعتماد کھو چکا ہے تو پھر اسے کہا جاتا ہے کہ آپ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ دوبارہ لیں لہٰذا آئین کے تحت یہ اجلاس نہیں بلایا گیا، یہ اجلاس بھی غیر آئینی ہے اور اس کے اندر اعتماد کا ووٹ بھی غیر آئینی ہے، اس اعتماد کے ووٹ کی کوئی دستوری، آئینی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے پہلے سے ذہن موجود تھا لیکن دوسرے عہدے کے لیے کوئی مشاورت نہیں ہوئی تھی۔
بلاول بھٹو زردار ی نے کہا کہ اگرچیئرمین سینیٹ کے صاف شفاف الیکشن ہوتے ہیں تو پی ڈی ایم کے چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے امیدوار کو منتخب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ،حکومت کی طرف سے یوسف رضاگیلانی کی جیت چیلنج کرنے کا ڈرامہ کیا جارہاہے ہمیں امید ہے کہ ضمنی الیکشن کی طرح چیئرمین سینیٹ الیکشن میں بھی آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ دیں گے ،حکومتی لوگ ڈرتے ہیں اسلئے وہ پی ڈی ایم کے امیدوار کو الیکشن سے باہر رکھنا چاہتے ہیں ،چوہدری شجاعت سے ملاقات ان کی صحت دریافت کرنے کےلئے کی اور حمزہ شہباز دو سال جیل میںرہے اسلئے ان سے ملاقات کی ۔پی ڈی ایم صاف ا ور شفاف الیکشن چاہتی ہے اور تمام فیصلے اتفاق رائے سے کئے جارہے ہیں ۔مریم نواز نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے حکومت اور اتحادی اقلیت میں ہیں جبکہ اپوزیشن کے پاس اکثریت ہے تو پھر انہوں نے اپنا امیدوار کس بنیاد میں کھڑا کیا کیونکہ وہ تو جیت نہیں سکتے۔انہوں نے کہا کہ حکومتی امیدوار کے جیتنے کی صرف یہ وجوہات ہوسکتی ہیں کہ پیسے سے خرید و فرخت کریں، دوسرا ایجنسیوں کو استعمال
کرکے دباو¿ ڈال کر اپوزیشن اراکین کو سینیٹ میں توڑ کر اپنی جماعت کی پالیسی یا ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے کے لیے دباو ڈالیں گے۔نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ایک طریقہ ہے کہ اپوزیشن اراکین کو فون کالز آئیں جو کہ آنا شروع ہوگئی ہیں، اسی بنیاد پر آپ سینیٹ کا انتخاب جیت سکتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کے بعد ہم یہ بھاشن بہت سنے کہ سینیٹ میں پیسہ چلتا ہے، اس لیے سیکرٹ بیلٹ نہیں ہونا چاہیے تو پھر اب انتظار ہے کہ آپ شو آف ہینڈز کے لیے کب بات کریں گے، آرڈیننس لے کر آئیں گے، الیکشن کمیشن سےکب رائے مانگیں گے اور سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔پنجاب میں عدم اعتما د کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے باجود مسلم لیگ (ن) جیتی تھی اور اب بھی ہماری اکثریت ہے، اس وقت ہم کسی ایسے شخص کو تبدیل کردیں جو اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتا تو عقل مندی کا فیصلہ نہیں ہے۔مریم نواز نے کہا کہ ہم ایک انسان کو گرا کر ان کا دوسرا انسان لانے کے لیے جدو جہد نہیں کی، اس حوالے سے ہم بیٹھ کر فیصلہ کریں گے، پنجاب میں بڑی تعداد میں اراکین صوبائی اسمبلی ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں