اسلام آباد(پی این آئی)وفاقی اور صوبائی حکومتیں ارکان پارلیمنٹ، بالخصوص جن کا تعلق حکومتی بینچوں سے ہوتا ہے، کی ترقیاتی اسکیموں پر اربوں روپے خرچ کرتی ہیں۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے سپریم کورٹ کو وزیراعظم کی طرف سے ارکان پارلیمنٹ کیلئے اعلان کردہ ترقیاتی فنڈزکے کیس میں نہیں بتائی گئی۔ اگرچہ یہ کیس نمٹا دیا گیا ہے لیکن سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت چک،
دیہات اور صوبوں کی یو سیز میں عام سی ترقیاتی اسکیموں کیلئے ٹینڈرز جاری کرتی ہے۔ ان اسکیموں میں سیوریج اور ڈرینیج کے کام، گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر، سولنگ اور پی پی سی (پلین سیمنٹ کنکریٹ) ورک وغیرہ جیسے کام شامل ہیں۔ قانون کے مطابق یہ کام کرانا بلدیاتی حکومتوں اور تحصیل اور ضلعی انتظامیہ کا کام ہے۔ لیکن، ان کیسز میں، حکمران جماعت کے ارکان پارلیمنٹ کی سفارش یا تجویز پر وفاقی حکومت پاک پی ڈبلیو ڈی جیسی ایجنسیوں کے ذریعے اس طرح کی اسکیموں پر کام شروع کراتی ہے۔ ٹینڈر کی دستاویزات میں متعلقہ رکن پارلیمنٹ کا نام نہیں لکھا لیکن عمومی طور پر قومی اسمبلی کے جن حلقوں میں وفاقی حکومت کی طرف سے یہ ترقیاتی اسکیمیں شروع کی جاتی ہیں ان کا نام لکھا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، وفاقی حکومت نے حال ہی میں ٹینڈرز جاری کیے تھے جو پی پی آر اے کی ویب سائٹپر بھی موجود ہیں۔ یہ ٹینڈرز حسین آباد اینڈ ڈرائی پورٹ کالونی یو سی 184 نیشنل اسمبلی حلقہ 129 لاہور کی اسٹریٹ نمبر 14 میں پی پی سی کی تعمیر کیلئے جاری کیے گئے تھے۔ اسکیم کیلئے 15 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔ اِسی یو سی میں لوریکس کالونی غازی آباد اورحلقہ نمبر 129 میں پی سی سی کی تعمیر کیلئے 22 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔ دیگر یو سیز (نمبر 146، 147، 148، 149، 150، 151، 152، 157، 158، 159 اور 160) میں سیوریج اور ڈرینیج ورک کے ساتھ مقامی سطح پر دیگر نچلی سطح کی اسکیموں کیلئے بھیوفاقی حکومت نے وفاق کے بجٹ سے کئی ٹینڈرز جاری کیے۔ یو سی کنڈی تحصیل غازی، ضلع ہری پور خیبر پختونخوا میں پانچ کلو میٹر سڑک کی تعمیر کیلئے بھی وفاقی حکومت نے ایک اور ٹینڈر جاری کیا۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے ضلع بہاول پور میں مختلف چکمیں 14 ترقیاتی اسکیموں کیلئے ٹینڈرز جاری کیے۔ ان اسکیموں میں سولنگ اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام شامل تھا۔ ایک اور مشتہر و منظور کردہ ٹینڈر این اے 65 اور پی پی 23 کے حلقوں میں شروع کی جانے والی 21 ترقیاتی اسکیموں کے متعلق تھا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنیبینچ نے ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر 50 کروڑ روپے کے فنڈز کے اجرا کے حوالے سے کیس کی سماعت کی تھی۔ عدالت میں وزیراعظم عمران خان سے اس معاملے پر جواب طلب کیا گیا تھا تاہم وزیراعظم نے تردید کی کہ ارکان پارلیمنٹ میں 50 کروڑ روپے تقسیم کیے گئےتھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقیاتی اسکیموں کیلئے ارکان پارلیمنٹ کو کوئی رقم جاری نہیں کی جائے گی۔ تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جن کی نشاندہی پر پانچ رکنی بینچ نے یہ معاملہ اٹھایا تھا، نے واٹس ایپ پر موصول ہونے والا ایک پیغام سامنے لا کر وزیراعظم کی یقین دہانی پر سوالات اٹھائےتھے۔ یہ پیغام معزز جج کو نامعلوم ذریعے سے موصول ہوا تھا جس میں ایسی دستاویزات موجود تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ پاک پی ڈبلیو ڈی کے ذریعے حلقہ این اے 65 میں سڑکوں کی تعمیر کیلئے بھاری رقوم جاری کی گئی تھیں۔ یہ حلقہ گجرات کے چوہدریوں کا ہے۔ تاہم چیف جسٹس پاکستان نے یہ نشاندہی کرتے ہوئے نمٹا دیا کہ جسٹس عیسیٰ چونکہ ایک اور کیس میں وزیراعظم کیخلاف مدعی ہیں لہذا انہیں اس کیس کی سماعت نہیں کرنا چاہئے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں