واشنگٹن/لندن (آئی این پی ) امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن کشمیر کو انسانی حقوق کا معاملہ سمجھتے ہیں اور اس کا فوری حل چاہتے ہیں، صدر جوبائیڈن باور کروا چکے ہیں کہ امریکا کے لئے انسانی حقوق ایک بنیادی مسئلہ ہے ، امریکا سمجھتا ہے کہ کشمیر ایک انسانی
حقوق کا مسئلہ ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر فوری طور پر حل ہو، کشمیر میں موبائل سروس اور فور جی فوری طور پر بحال ہونی چاہیے۔ ہفتہ کو برطانوی خبر رساں ادارے اور نجی ٹی وی چینل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے زیڈ تارڑ نے کہا کہ صدر جوبائیڈن باور کروا چکے ہیں کہ امریکا کے لئے انسانی حقوق ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ کشمیر ایک انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر فوری طور پر حل ہو، کشمیر میں موبائل سروس اور فور جی فوری طور پر بحال ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ نئے امریکا صدر نے اعلان کیا ہے کہ سپر پاور واپس دنیا میں آ گیا ہے۔ نئے امریکی صدر چاہتے ہیں کہ دنیا میں تمام مسائل کا حل مل جل کر نکالا جائے۔ موجودہ درپیش مسائل میں کورونا وائرس پر قابو اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا حل نکالنا ہے۔ موجودہ امریکی انتظامیہ پچھلی انتظامیہ سے کئی حوالوں سے مختلف ہے۔اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان زیڈ تارڑ نے برطانوی خبر رساں ادارے سے انٹرویو کے دوران پاک امریکا تعلقات، سی پیک سمیت دیگر اہم امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ زیڈ تارڑ امریکی محکمہ خارجہ کے لندن میڈیا ہب میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ وہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے محکمے کے میڈیا امور کو دیکھتے ہیں۔سی پیک سے متعلق پوچھے گئے سوال
کے جواب میں زیڈ تارڑ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری پر ہمارا موقف واضح ہے، نہیں چاہتے کہ کوئی بھی شراکت دار قرضوں کے بوجھ تلے آئے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا تعلقات ایک تاریخی معاملہ ہے اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت مواقع ہیں۔ سیکریٹری بلنکن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے گفتگو میں کہا کہ امید کرتے ہیں کہ تعلقات کو مضبوط بنا سکیں خاص کر کے تجارت کے شعبے میں۔سابق صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی تو کیا نئی بائیڈن انتظامیہ بھی کچھ ایسا کرے گی اس سوال پر انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ انتظامیہ سے کئی گنا مختلف ہے۔ عالمی سطح پر مسائل بات چیت اور سفارتکاری سے حل ہوتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ براہ راست پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت سے کشمیر کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکی خارجہ پالیسی دیکھتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا کوئی مقابلہ ہے۔ میں خود اسی فائل کو سنبھال رہا ہوں اور دفتر خارجہ میں بطور سفارتکار مجھے 11 سال ہو گئے اور مجھے کبھی کوئی ایسا شک نہیں ہوا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات باقی دنیا کے مقابلے میں مختلف ہیں۔امریکا اور چین کیساتھ پاکستانی تعلقات پر سوال کے جواب میں ان
کاکہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات صرف چین کے زاویے سے دیکھے جائیں گے۔ ہماری ایک اور بھی ترجیح افغانستان میں امن اور استحکام ہے اور پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن و استحکام قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن عمل کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا کہ کیا نئی بائیڈن انتظامیہ طالبان کے ساتھ ہوئے دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کر رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس پورے عمل پر نظر ثانی چل رہی ہے اور خاص طور پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ طالبان نے جو وعدہ کیا ہے وہ درست ہے اور کیا طالبان اپنے وعدوں کو یقینی بنانے کے لیے ہر قدم اٹھا رہے ہیں یا نہیں۔ یہ ریویو ابھی چل رہا ہے مگر یہ تفصیل ابھی موجود نہیں ہے کہ یہ کس طرف جا سکتا ہے۔افغانستان سے طالبان افواج کے انخلا پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فورسز کے انخلا کے حوالے سے صدر بائیڈن نے کوئی فیصلہ نہیں لیا۔ ہم پہلے ریویو کریں گے اور پھر امریکی فوجیوں کے انخلا پر فیصلہ کریں گے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں